محرم الحرام کا چاند نظر آیا،نئے عربی سال کی ابتداء ، دنیا میں موجود تقاویم کے تعلق سے ایک سرسری مطالعہ

ہجری سال 1441ھ رخصت ہوا اور سال نو 1442ھ ہمارے بیچ سایہ فگن ہوچکا ہے۔ آج ہندوستان کے مختلف شہروں میں ماہ محرام الحرام کا چاند دیکھا گیا ہے جس کی توثیق مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی ہلال کمیٹی نے کی ہے۔مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے اخباروں کے نام جاری اپنے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے

آج مورخہ 20/اگست2020ء بمطابق 29/ذی الحجہ1441ھ بروزجمعرات مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مرکزی اہل حدیث رویت ہلال کمیٹی دہلی کی ایک میٹنگ ہوئی۔ ملک کے مختلف حصے میں چاند کی رویت کی مصدقہ و مستند خبر موصول ہونے کے پیش نظر مرکزی اہل حدیث رویت ہلال کمیٹی دہلی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 21/اگست 2020ء بروز جمعہ محرم الحرام کی پہلی تاریخ ہوگی۔

پوری دنیا میں لوگوں نے سال نو 1442ھ کا والہانہ انداز میں استقبال کیا ہے اور ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کی ہے کہ یہ سال ملک و ملت اور پوری انسانیت کے لئے خیروبرکت کا باعث ہو۔ﷲتعالی کورونا جیسی عالمی وباء اور مہاماری سے سال نو میں نجات دے اور تمام مسلمانوں اور امن پسند انسانیت کو امن و سکون اور سکھ شانتی عطا کرے۔

آپ کو بتادیں کہ تاریخ کا وجود وجود بنو آدم سے ہی ہے۔چنانچہ علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی، اس وقت ہبوط آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفان نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ہوئی، پھر نار خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج مصر سے، پھر داؤد علیہ السلام سے،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر عیسیٰ علیہ السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم احمر نے واقعہ تبایعہ کو، قوم غسان نے سد سکندری کو، اہل صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا۔

علامہ عینی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہل عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے پہلے اہل عرب نے حرب بسوس (یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے چالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے بعد جنگ داحس (جو محض گھڑ دوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی اور ان دونوں جنگوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوالعقد الفرید ج3 ص 74 وابن اثیر ص384 پھرجنگ غبراء سے، پھر جنگ ذی قار سے پھر جنگ فجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے، پھر اصحاب الفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی۔ (ملاحظہ ہو:عمدۃ القاری للعلامہ بدرالدین عینی ج17 ص66) لیکن اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور یونانیوں کے دور، بالخصوص سکندراعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ زمانہ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے۔

جہاں تک بات ہجری سال کی ابتداء کی ہے تو اس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ اس کا آغازرسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے سے ہوا۔ہجری تقویم کی ابتداء دوسرے خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کی تھی اور اسلامی احکامات اسی سال اور اس کے مہینے کے ساتھ مربوط ہیں۔ اسلامی تقویم کی ابتداء یوں ہوئی کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت 17 ہجری میں ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط جاری ہوتے ہیں لیکن آپ کے ان خطوط میں تاریخ لکھی ہوئی نہیں ہوتی اور تاریخ لکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے کہ کس دن آپ کی طرف سے حکم نامہ جاری ہوا اور کب پہنچا اور کب اس پر عمل درآمد ہوا۔ ان سب باتوں کے سمجھنے کا دارومدار تاریخ لکھنے پر ہے توعمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو نہایت معقول بات سمجھا اور فوری طور پر اکابر صحابہ اکرام کی ایک میٹنگ بلائی اس میں مشورہ دینے والے صحابہ کی طرف سے چار باتیں سامنے آئیں:

اکابر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک جماعت کی یہ رائے ہوئی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔دوسری جماعت کی یہ رائے تھی کہ نبوت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔ تیسری جماعت کی رائے یہ ہوئی کہ ہجرت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔چوتھی جماعت کی یہ رائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔ ان چاروں قسم کی رائے کے بعد ان پر با ضابطہ بحث ہوئی پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے میں اختلاف سامنے آ سکتا ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور بعثت کا دن قطعی طور پر متعین نہیں ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے شروع کرنا اس لئے مناسب نہیں کہ وفات کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لئے غم اور صدمہ کا سال ہے۔لہذا مناسب یہ ہو گا کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے اس پر پھر چاروں جماعتوں نے اپنے اپنے نکات پیش کئے۔ عمررضی اللہ عنہ نے سب کی رائے نہایت احترام کے ساتھ سنی پھر آخر میں یہ فیصلہ دیا کہ محرم کے مہینہ سے اسلام کے مہینہ کی ابتدا ہو نی چاہیئے کیونکہ انصار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ منورہ ہجرت کر کے آنے کی دعوت پیش فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمائی یہ ذوالحجہ کے مہینے میں حج کے بعد پیش آیا اور محرم کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ہجرت کے لئے روانہ فرمایا اور اس کی تکمیل ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے ہوئی جبکہ حج سے فراغت کے بعد حاجی لوگ اپنے گھروں کو محرم کے مہینے میں واپس آتے ہیں ان وجوہات کی بنا پر سال کے مہینے کی ابتدا محرم سے مناسب ہے اس پر تمام صحابہ اکرام کا اتفاق اور اجماع ہوا کہ سال کے مہینے کی ابتدا محرم سے ہو۔لہذا اسلامی سال کی ابتدا ہجرت سے ہے اور اسلامی مہینہ کی ابتدا محرم الحرام سے مان لی گئی اور اسی پر امت کا عمل جاری ہے۔

یہاں دنیا بھر میں پائی جانے والی کچھ تقاویم کا تذکرہ کیا جارہا ہے تاکہ نوشتہ دیوار کے قارئین کو اس کے تعلق سے مکمل آگاہی ہوسکے اور بوقت ضرورت اس سے استفادہ کرسکیں۔چنانچہ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ بروقت دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں، جن کا دار ومدار تین چیزیں ہیں۔ سورج، چاند، ستارے۔ اس لیے بنیادی تقاویم تین ہیں: شمسی، قمری، نجومی۔ پھر شمسی کیلنڈر کی تین قسمیں ہیں۔ ایک عیسوی،جس کو انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں دوم بکرمی جس کو ہندی بھی کہتے ہیں، سوم تاریخ فصلی۔ ان کے علاوہ او ربھی تقاویم ہیں،جیسے تاریخ رومی، تاریخ الہٰی۔

تاریخ عیسوی: تاریخ عیسوی (جس کو تاریخ انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں) شمسی ہے۔ یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے رائج ہے یا نصاری کے بزعم باطل حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے شروع ہوتی ہے، اس کی ابتدا جنوری او رانتہا دسمبر پر ہوتی ہے۔

تاریخ ہندی: ہندی سال کو بسنت کہتے ہیں۔ اس تاریخ کا دوسرا نام بکرمی ہے۔ مہینے یہ ہیں، چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، کنوار، کاتک، اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سن ہجری سے تقریباً637 سال پہلے اور سن عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں رائج تھی۔

تاریخ فصلی بنیادی طور پر سال شمسی ہے، یہ سن اکبر بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لیے وضع کیا گیا تھا۔

نجومی جنتری شاکھا کے نام سے مشہور ہے، مہینے یہ ہیں: حمل، ثور، جوزا، سرطان،اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔

تاریخ رومی، تاریخ اسکندری اور تاریخ الہیٰ

تاریخ رومی اسکندر کے عہدسے مروج ہے، جس پر1975ء میں 2286ء سال شمسی گزر چکے ہیں، اس کا دوسرا نام تاریخ اسکندری ہے یہ 282 قبل المسیح سے شروع ہوتی ہے۔

تاریخ رومی کے مہینے (جن کی ابتداء مہرجان یعنی کا تک سے ہوتی ہے) یہ ہیں: تشرین اول، تشرین آخر، کانون اول، کانون آخر، شباط، اذار، نیسان، ابار، حزیران، تموز، اب، ایلول۔ رومیوں کا سال 1-4-365 دن کا ہوتا ہے۔ تشرین آخر، نیسان، حزیران، ایلول یہ چار مہینے 30 دن کے باقی سب 31 کے ہوتے ہیں، سوائے شباط کے، جو28 دن کا ہوتا ہے اور ہر چوتھے سال 29 دن کا ہوتا ہے۔

تاریخ الہیٰ کے مہینے یہ ہیں: فروردین، اردی، بہشت،خورداد، تیر،ا مرداد، شہر پو،مہر، آبان ذے، بہمن، اسفندار۔یہ سن جلال الدین اکبر بادشاہ کے جلوس کی تاریخ (یعنی3 ربیع الثانی992ھ) سے شروع ہوا، اس میں حقیقی شمسی سال ہوتے ہیں۔

سنہ شمسی اور قمری میں فرق: جاننا چاہیے کہ سنہ شمسی تین سو پینسٹھ دن او رربع یوم کا ہوتا ہے، چار سال میں ایک دن کا اضافہ ہو کر ہر چوتھے سال 366 دن کا سال ہو جائے گا۔ سنہ قمری سے سنہ شمسی میں دس دن اکیس گھنٹے زائد ہوتے ہیں۔

قمری تقویم کے فوائد: مروجہ تقویم میں سے جو فوائد قمری تقویم میں ہیں وہ کسی اور تقویم میں نہیں ہیں،نہ ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کہ رب کائنات نے روز مرہ کے کام کاج اور لین دین کی آسانی وسہولت کی خاطر چاند کا نظام اس طرح بنایا جس سے ہر انسان ہر علاقے میں آسانی سے تاریخ کا تعین کر سکتا ہے۔ مثلاً مغرب کی طرف سے جب چاند پتلا نظر آتا ہے تو ہر انسان (عالم، جاہل، شہری، دہقانی) معلوم کرسکتا ہے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ ہے، اسی طرح چاند جب بالکل مکمل ہو تو اس سے چودھویں تاریخ کا تعین کرسکتا ہے، اسی طرح جب مشرق کی جانب سے چاند باریک طلوع ہوتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ستائیس یا اٹھائیس تاریخ ہے، اسی طرح روز روز واضح طور پر چاند کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے، جس سے ہر انسان معمولی تدبر سے تاریخ کا تعین کرسکتا ہے۔ بخلاف شمسی تقویم (کیلنڈر) کے کہ اس سے تاریخوں کا پتہ نہیں چل سکتا، مثلاً دسمبر کی پندرہ تاریخ ہو تو کوئی آدمی آفتاب دیکھ کر یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ آج پندرہ تاریخ ہے،نہ اس کی ہیئت وصورت میں نمایاں تبدیلی آتی ہے،جس کو دیکھ کر تاریخ کا تعین ہو سکے، نیز شمسی تاریخ آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے،جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کرسکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے احکام وعبادات کا مدار قمری حساب پر رکھا ہے، قرآن کہتا ہے:یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج یعنی لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کی عبادت کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے۔

اس خوشی کے موقع پر نوشتہ دیوار اپنے تمام قارئین کو دل کی گہرائیوں سے نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہے اور ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سال نو کو ہمارے لئے مبارک بنائے، پوری دنیا سے عموما اور وطن عزیز سے خصوصا کورونا کووڈ19 کاخاتمہ کردے۔ آپ سب کو سال نو مبارک ہو۔

 1,610 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے