دنیائے علم و تحقیق کی عالمی شخصیت شیخ عزیر شمس صاحب کے سانحہ ارتحال پر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی کا اظہار تعزیت

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے دنیائے علم و تحقیق کی معتبر ومقتدر عالمی شخصیت،معارف ابن تیمیہ کے امین،معروف مخطوطہ شناس ،نازش علم و علماء،عظیم اسکالر ،کبیر الباحثین فی الحرم المکی اور امام شیخ الازھر کے علمی امور کے مشیر شیخ عزیر شمس صاحب کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کی موت کو قوم وملت اوردنیائے علم و تحقیق کا عظیم خسارہ قرار دیا ہے۔
امیر محترم نے کہا کہ شیخ عزیر شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک صاف دل،صاف گو،طلبہ نواز ،نہایت خلیق وملنسار،نیک طبع وپاکباز اورسادگی پسند ومتواضع انسان تھے۔مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے کازسے بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم جامعہ فیض عام مئو،دارالعلوم احمدیہ سلفیہ، دربھنگہ، بہار، دارالحدیث بلڈنگا ، مغربی بنگال، مدرسہ رحمانیہ بنارس وغیرہ مدارس وجامعات میں ہوئی ۔آپ کا تعلق مدھوبنی بہار کے معروف علمی خانوادے سے تھا۔آپ کے والد گرامی مولانا شمس الحق سلفی رحمہ اللہ مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الحدیث اور چچا مولانا عین الحق سلفی رحمہ اللہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے شیخ الحدیث تھے۔آپ کو علم وفضل اور ذہانت وذکاوث ورثہ میں ملی تھی۔آپ کے دیگر اخوان بھی علم وکمال کے نیر تاباں ہیں۔آپ جامعہ سلفیہ بنارس کے ممتاز فارغ التحصیل تھے،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں بھی دوران تعلیم اپنے اقران میں فائق وممتاز رہے۔جامعہ ام القری میں آپ کے ایم اے کے مقالہ کا عنوان’’ التاثیر العربی فی شعر حالی ونقدہ‘‘ تھااور ’ پی ایچ ڈی کی تھیسس’’الشعر العربی فی الھنددراسۃنقدیۃ‘‘ کے موضوع پر لکھی۔ آپ نے جن ہندوستانی اکابر علماء ومشائخ سے اکتساب فیض کیا ان میںان کے والد گرامی شیخ شمس الحق سلفی، شیخ محمدرئیس ندوی ،ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری،مولانا محمد ادریس رحمانی، مولاناعبد المعید بنارسی، شیخ عبد السلام مدنی، شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ، شیخ عبدالنور ندوی،شیخ عبدالوحید رحمانی ، شیخ عین الحق سلفی رحمھم اللہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔زمانہ طالب علمی ہی میں آپ نے خدا بخش لائبریری،پٹنہ ،رضا لائبریری رامپور،عثمانیہ لائبریری حیدرآباد وغیرہ کو چھان ڈالا تھا اور اسی وقت سے آپ کے علمی وتحقیقی مقالات ماہنامہ معارف ،ماہنامہ برہان،جریدہ ترجمان دہلی،تحقیقات اسلامی علی گڑھ،محدث بنارس،مجلہ مجمع اللغہ العربیۃ دمشق جیسے موقر رسائل میں شائع ہوتے تھے ۔آپ کی علمی و تحقیقی نگارشات اہل علم کی نگاہوں میں قدر واعتبار کی نگاہوں سے دیکھی جاتی تھیں۔آپ نے خدابخش اورینٹل لائبریری پٹنہ کے مخطوطات کی فہرست سازی کی۔آپ نے درجنوں کتابوں کی تالیف وتحقیق فرمائی،ترجمے کئے اور آپ کے سینکڑوں علمی و ادبی اور تحقیقی مقالات معتبرعربی واردو رسائل و جرائد کی زینت بنے۔آپ زندگی بھر علم و تحقیق کے مشغلے سے جڑے رہے۔آپ کی مشہور زمانہ مولفات حیاۃ المحدث شمس الحق وآثارہ (عربی) ، حیاۃ المحدث شمس الحق وآثارہ(اردو) ، اعلام اہل حدیث فی الھند (اردو) ، رسالۃ فی حکم السبحۃ (اردو) ، مولفات الامام بن قیم الجوزیہ ہیں۔اسی طرح آپ نے جن اہم مخطوطات اورکتب کی تحقیق فرمائی ان میںرفع الالتباس عن بعض الناس للعظیم آبادی، غایۃ المقصود شرح سنن ابی دائود، للعظیم آبادی، جلد اول، مجموعہ فتاوی الشیخ شمس الحق عظیم آبادی (اردو، فارسی)، رد الاشراک، لاسماعیل بن عبدالغنی الدہلوی، تاریخ وفاۃ الشیوخ الذین ادرکھم البغوی، لابی القاسم البغوی، جزء فی استدراک ام المومنین عائشۃ علی الصحابۃ، لابی منصور البغدادی، روائع التراث، (عشر رسائل نادرۃ فی فنون مختلفتہ ، بحوث و تحقیقات للعلامۃ عبدالعزیز المیمنی، اتحاف النبیۃ بما یحتاج الیہ المحدث والفقیہ، لولی اللہ الدھلوی، ، مجموعہ رسائل الامام ولی اللہ الدھلوی، (غیر مطبوع) مجموعہ رسال المحدث شمس الحق العظیم آبادی (غیر مطبوع) الجامع لسیرۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (بالاشتراک )، تقیید المھمل وتمییز المشکل، لابی علی الجیانی (بالاشتراک)، قاعدۃ فی الاستحسان، لشیخ الاسلام ابن تیمیہ، جامع المسائل (۵ مجلدات) لشیخ الاسلام ابن تیمیہ، الرسالۃ التبوکیۃ، لابن قیم الجوزیہ، تنبیۃ الرجل العاقل علی تمویہ الجدل الباطل، لشیخ الاسلام ابن تیمیہ، (بالاشتراک) قابل ذکر ہیں۔افسوس کہ کل ہندوستانی وقت کے مطابق تقریبا گیارہ بجے شب ۶۷ سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کے سبب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بلاشبہ آپ قوم وملت کے بڑے اثاثہ تھے،مخطوطہ شناسی میں سند کا درجہ رکھتے تھے اورنسل نو کے لیے چراغ راہ۔ان کا انتقال جمعیت وجماعت،قوم وملت اور علم وتحقیق کی دنیا کا عظیم خسارہ ہے۔ پسماندگان میں اہلیہ ،ایک صاحب زادے عبد اللہ اور تین صاحبزادیاں سعاد ،بشری ،سارہ سلمھم اللہ ہیں۔ کل ہندوستانی وقت کے مطابق چار بجے صبح مکہ میں تدفین عمل میں آئے گی۔ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، بشری لغزشوں سے درگذرفرمائے، دینی وعلمی خدمات کوشرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس کامکین بنائے،جملہ پسماندگان ومتعلقین کوصبرجمیل کی توفیق عطافرمائے اورجمعیت وجماعت اور قوم وملت کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے جملہ ذمہ داران وکارکنان نے شیخ کے سانحہ ارتحال پر افسوس کا اظہار کیاس ہے اور ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا کی ہے۔

 379 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے