مشہور محقق اور معروف عالم دین مولانا عزیز شمس مدنی کا سانحۂ ارتحال

عزیر شمس

عالم اسلام کی مشہور شخصیت، علم تحقیق کے شہسوار ، ذہبی دوراں اور معروف عالم دین مولانا عزیز شمس کا مکہ مکرمہ میں رات تقریباً ساڑھے سات بجے انتقال ہوگیا۔ اطلاعات کے مطابق موصوف کو ہارٹ اٹیک ہوا اور آپ کو اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپ کی وفات کی تصدیق کردی۔

مولانا عزیز شمس صاحب نے ابتدائی تعلیم جامعہ فیض عام مئو سے حاصل کیا، اس کے بعد مدرسہ رحمانیہ بنارس میں تعلیم پائی اورپھر جامعہ سلفیہ بنارس سے فضیلت کی تعلیم مکمل کی۔بعد ازاں، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بی اے اور جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور اسی طرح سےآپ نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’ہندوستان میں عربی شاعری: ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے مکمل کیا تھا مگر ویکی پیڈیا کے مطابق  اور بعض اشخاص نے اپنی تحریروں میں علامہ عزیز شمس رحمہ اللہ کے حوالہ سے بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے مقالہ تو مکمل کرلیا لیکن کسی وجہ سے اس کو جمع نہ کرسکے۔

آپ نے جس مشاہیر علمائے کرام سے کسب فیض کیا ان میں آپ کے والد محترم حضرت مولانا شمس الحق سلفی، حضرت مولانا رئیس الاحرار ندوی، حضرت مولانا ادریس رحمانی،مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا عبدالسلام رحمانی، حضرت مولانا صفی الرحمان مبارک پوری وغیرہ کے نام اہم اور قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح عرب مشائخ جن سے جامعہ اسلامیہ مدینہ اور جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں دورانِ تعلیم آپ نے اکتساب فیض کیا ان میں ڈاکٹر عبدالعظیم الشناوی، عزالدین علی السید، احمد السید الغالی، محمد قناوی عبداللہ، محفوظ ابراہیم الفرج، عبدالعزیز کشک، ڈاکٹر حسن محمد باجووہ، محمود حسن زینی، عبدالحکیم حسان، ڈاکٹر احمد مکی الانصاری، علی محمد العماری، عبدالسلام فہمی وغیرہ اہم اور قابل ذکر ہیں۔

آپ حصول تعلیم کے بعد سعودی عرب ہی میں مقیم رہے اور مختلف معتبر علمی مراکز سے وابستہ ہوکر دینی و علمی خدمات انجام دیا۔

موجودہ دور میں علامہ عزیز شمس رحمہ اللہ کا نام بہت معتبر تھا کیونکہ تحقیق کے میدان میں آپ نے متعدد کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے علمی میراث کے شناور تھے اور آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مخطوطات سے متعلق گہری جانکاریاں بھی تھیں۔

آپ نے مختلف کتابوں کی تالیف فرمائی جن میں سے اکثر کتابیں مطبوع اور عوام و خواص کے مابین مقبول بھی ہیں لیکن آپ کا زیادہ کام اسلاف کرام کی کتابوں کی تحقیق و تنقیح کا ہے۔ آپ نے جن کتابوں کی تالیف فرمائی ہے ان میں حیاۃ المحدث شمس الحق و آثارہ، الجامع لسیرۃ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ خلال سبعۃ قرون، مؤلفات الامام ابن القیم الجوزیۃ وغیرہ اہم اور قابل ذکر ہیں لیکن جن کتابوں کی آپ نے تحقیق فرمائی ہے ان کی فہرست کافی طویل ہیں  جن میں سے کچھ مشہور رفع الالتباس عن بعض الناس للعظيم آبادي، غايۃ المقصود شرح سنن أبي داود، للعظيم آبادي (المجلد الأول)، مجموعۃ فتاوى الشيخ شمس الحق العظيم آبادي (بالأردية والفارسية، ردّ الإشراك، لاسماعيل بن عبد الغني الدهلوي، تاريخ وفاة الشيوخ الذين أدركهم البغوي، لأبي القاسم البغوي، جزء في استدراك أم المؤمنين عائشۃ على الصحابۃ، لأبي منصور البغدادي، روائع التراث (عشر رسائل نادرة في فنون مختلفۃ)، بحوث وتحقيقات للعلامۃ عبد العزيز الميمني، إتحاف النبيۃ بما يحتاج إليه المحدث والفقيہ، لولي الله الدهلوي (تعريب)، مجموعۃ رسائل الإمام ولي الله الدهلوي (غير مطبوع)، مجموعۃ رسائل المحدث شمس الحق العظيم آبادي (غير مطبوع)،الجامع لسيرة شيخ الإسلام ابن تيميۃ (بالاشتراك)،تقييد المهمل وتمييز المشكل، لأبي علي الجياني (بالاشتراك)،قاعدة في الاستحسان، لشيخ الإسلام ابن تيمية، جامع المسائل (5 مجلدات ) لشيخ الإسلام ابن تيمية، الرسالۃ التبوکیۃ، لابن قيم الجوزية، تنبيۃ الرجل العاقل على تمويہ الجدل الباطل لشيخ الإسلام ابن تيميۃ، (بالاشتراك)

آپ ان کتابوں کو پڑھ جائیں اور شیخ محترم کے علمی مقام  ومترتبہ کے برابر میں تصور کریں کہ شیخ موجودہ زمانے کے عظیم محقق تھے  ۔ آپ کواردو ، عربی، فارسی اورانگلش وغیرہ زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔

 آپ 1957ء کے آغاز میں پیدا ہوئے اور آپ کا تعلق صوبہ بہار کے معروف ضلع مدھوبنی کے معروف علمی خانوادہ سے تھا۔آپ کے والد گرامی مولانا شمس الحق سلفی مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الحدیث تھے اور آپ کے دادا کا نام رضاء اللہ تھا اور وہ بھی ایک معروف عالم دین تھے۔ 

آپ کی وفات سے تحقیقی حلقہ میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی آپ کی وفات کی خبر موصول ہوئی آپ کے وابستگان اور علم دوستوں پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ اس لئے کہ آپ کی شخصیت علم و تحقیق کے میدان میں عظیم تو تھی ہی لیکن آپ اخلاق و کردار اور تواضع و انکساری کے باب میں بھی مثالی تھے اور آپ طلبائے علم کے ساتھ بیٹھتے، ان کے علمی سوالوں کے جوابات دیتے۔ عالمی وباء کورونا کے زمانے میں ہم نے دیکھا کہ آپ نے فیس بک پر لائیو علمی دروس دیئے اور احباب کے علمی سوالوں کا تشفی بخش جواب مرحمت فرمائے۔

غرض علامہ عزیز شمس رحمہ اللہ موجودہ زمانہ کے ایک عظیم عالم تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم و تحقیق کے لئے وقف کردی تھی۔ آپ کی وفات سے علمی میدان میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تو ہمارے ممدوح کی مغفرت فرما، آپ کی کاوشوں کو قبول فرما، آپ کی بشری لغزشوں پر عفو کا قلم پھیردے، آپ کو جنۃ الفردوس الاعلیٰ کا مکیں بنا۔ آپ کے جملہ پسماندگان، وابستگان اور متعلقین کو صبر جمیل عطافرمائے اور عالم اسلام کو آپ کا بہتر نعم البدل بخشے۔ آمین تقبل یارب العالمین۔

 810 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے