احترام انسانیت اور مذاہب عالم

ڈاکٹر علی راشد النعیمی صدر ’عالمی مسلم کمیونٹیز کونسل‘ ریاست متحدہ عرب امارات
ترجمانی :مولانامحمد اظہر مدنی، جامعہ ابوبکر الصدیق الاسلامیہ، نئی دہلی
،حمد و صلاۃ کے بعد
مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث، ہند سے وابستہ برادران، بالخصوص اس کی قیادت کررہے عالی جناب اصغر علی امام مہدی سلفی کو شکر وسپاش کا نذرانہ پیش کروں، جنہوں نے مجھے آل انڈیا کی پینتیسویں کانفرنس بعنوان ’’احترامِ انسانیت اور مذاہبِ عالم‘‘  میں شرکت کی دعوت دی۔ بے شک یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد کی جارہی ہے جو پُرامن بقائے باہمی، تمام مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تعمیری مکالمے کی مضبوطی نیز احترامِ انسانیت کے بلند وبالا اصولوں پر زور دینے کے حوالے سے مذہبی قیادتوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا زریں موقع فراہم کرتا ہے۔ دراصل یہ کانفرنس ملک میں امن وامان، استحکام، خوش حالی اور ترقی کو فروغ دینے میں مذہبی قیادتوں کے بنیادی اور فعّال کردار کو بھی سند عطا کرتی ہے اور ان کی اہمیت کو دوبالا بھی کرتی ہے۔
یہ بات کسی پر بھی مخفی نہیں کہ مذاہب نے مختلف ادوار میں باہمی رواداری اور برداشت کو فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، کیونکہ ان کے مقدس نصوص اور دینی تعلیمات محبت، امن، باہمی احترام اور احترامِ انسانیت کے اصول ومبادیات کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ پُر امن اور محفوظ زندگی کے حق کے اصولوں کو بھی استحکام فراہم کرتی ہیں۔ ہمارا دین  مذہبِ اسلام،اس حوالے سے بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں،’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَیٰ کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا‘‘(الاسراء، 70)،یقیناً ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ یہاں عزت اور انسانی کرامت تمام بنی آدم کو شامل ہے، چاہے ان کا مذہب، نسل یا ثقافت کچھ بھی ہو۔ یہ ایک عظیم پیغام ہے جس کا  ہمیں کھلے دل کے ساتھ خیر مقدم کرنا چاہییاوراپنی سماجی زندگی میں احترامِ انسانیت اورکرامتِ انسانی کی عظمت کے سلسلے میں وارد قرآن وسنت میں وارد اصول وضوابط اوراحکام پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کے اس ہمہ گیر پیغام کو عام کرنا چاہیے۔
آج جب ہم ہندوستان کے دارالحکومت دہلی شہر میں جمع ہیں، ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مذہبی تکثیریت وتنوع وہ اہم خوبی ہے جوہندوستان کو  دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے؛ کیوں کہ یہ مذہبی تنوع اس ملک کی طاقت کا ایک اہم وسیلہ، اس کے باشندوں کے لئے امن و امان کی ضامن، ان کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کا منار، باہمی محبت و احترام اور وطن سے وفاداری کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسے سماج کا نقیب ہے جو رواداری اور دوسروں کو اپنانے کی روح پر مبنی ہے۔
ہندوستان، یہ عظیم ملک، اپنی سرزمین میں ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد لوگوں کو سموئے ہوئے ہے، جو مختلف زبانیں بولتے ہیں، الگ الگ نسلوں سے ان کا تعلق ہے، وہ مختلف اور گوں ناگوں مذہبی رسومات انجام دیتے ہیں۔ ہندوستان کی سالمیت نیز بقائے باہمی کی طاقت اس کے شہریوں کی اس صلاحیت میں پوشیدہ ہے کہ وہ بغیر مذہبی اور اعتقادی اختلافات کی پروا کیے، اس تنوع کو اپنا کر محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں، وحدت میں کثرت ان کا طغرائے امتیاز ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھشٹ اور دیگر مذاہب کے لوگ زندگی کے روزمرہ کے معاملات کو، چاہے وہ اقتصادی ہوں، سماجی ہوں، سیاسی ہوں، کھیلوں کے میدان میں ہوں یا فنون میں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر طے کرتے ہیں، وہ مذہبی آزادر اور دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہونچائے بنا  باہمی تفاہم کے ذریعہ قومی تقریبات مناتے، اپنے ثقافتی میلوں اور مذہبی تہواروں کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت دنیا میں ایک مثالی نمونہ بن چکا ہے جسے بقائے باہمی، رواداری، اور دوسروں کے تئیں احترام کے لیے سراہا جاتا ہے۔
ہندوستان کا رواداری اور بقائے باہمی کی روح پر قائم رہنا نہ صرف اسے سماجی استحکام اور اقتصادی ترقی فراہم کرتا ہے بلکہ دنیا کے لیے اسے ایک قابلِ تقلید مثبت نمونہ کے طور پر بھی پیش کرتا ہے۔ یہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کو ایک بنیادی اصول کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے ذریعے ایک منصفانہ اور خوشحال معاشرہ تشکیل پاتا ہے، جہاں سب کو تخلیقی مواقع اور ترقی کی راہ میں اپنا حصہ ڈالنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔
’احترامِ انسانیت اور مذاہب عالم‘  کے موضوع پر منعقد کانفرنس کے اس اجلاس کے حوالے سے ہمیں اس تاریخی اور اہم کردار کو بھی یاد کرنے کی ضرورت ہے  جسے ہندوستان  کے مسلم علماء نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان شہری اقدار اور بقائے باہمی کو مستحکم کرنے میں ادا کیا۔ تاریخ اور بھارت کی وراثت گواہ ہے کہ کس طرح مسلمان علماء نے معاشرتی ہم آہنگی اور باہمی احترام کو فروغ دینے میں نمایاں اور کلیدی کردار ادا کیا۔ آج کے دور میں، ہندوستان کے مسلمانوں پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہندوستانی معاشرے کی اس  انفرادیت وخصوصیت کو برقرار اور اپنے اسلامی ورثے کو زندہ رکھیں، اپنے اسلاف کے اس اہم کردار کو اجاگر کریں جو انہوں نے اس وطن کی تعمیر میں ادا کیا۔ نئی نسل کو وطن سے محبت، اپنے فرائض و حقوق کی شناسائی وادائیگی نیز ہندوستانی شہری ہونے پر  انھیں فخر کا درس دیں،تاکہ وہ ایسے ذمہ دار شہری بن سکیں جنھیں اپنے دین سے لگاو?، اپنے وطن سے پیار اور اپنے ہم وطنوں سے محبت ہو، خواہ ان کا عقیدہ، مذہب اور کلچر کچھ بھی ہو۔ وہ ہر ایک کے ساتھ احترام وعقیدت کے ساتھ پیش آئیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندوستان کے مسلم علماء نے اس ملک کی آزادی سے پہلے اور بعد میں بھی امن، انصاف اور رواداری کی اہمیت کو سمجھا، احترامِ انسانیت وبقائے باہمی کے باب میں وارد دینی نصوص اور سیرتِ نبوی کی روشنی میں انھوں نے رہنمائی حاصل کی ہے،جو نرمی، انصاف، پُر امن زندگی، اور احترامِ انسانیت کے فروغ کی تلقین کرتی ہے۔ انہوں نے خطبات، لیکچرز، تصانیف، اور علمی مباحثوں کے ذریعے تعصب اورباہمی نفرت کو چھوڑنے اور مکالمے اور باہمی گفت وشنید کو آپسی اختلافات کے حل کے لیے انھوں نے وسیلہ بنانے کی دعوت دی ہے۔ اسی طرح، انہوں نے برابری ومساوات اور ملک میں سب کے حقوق کی ضمانت کے حصول کے لیے عوامی اور سیاسی زندگی میں فعاّل شرکت پر یقین رکھا اور ہر موڑ پر شہری اقدار اور اس کے فرائض کو بلند کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ یہ مسلسل کوششیں آج بھی ایک متحدہ ہندوستانی سماج تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہندوستان  پُر امن بقائے باہمی اور اختلافات کے احترام سے لطف اندوز ہورہا ہے، جس سے ملک میں استحکام اور ترقی کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
’عالمی مسلم کمیونٹیز کونسل‘ متحدہ عرب امارات ’مرکزی جمعیتِ اہل حدیث ہند‘ کو اس کانفرنس کے موضوع کے بہترین انتخاب پر مبارکباد پیش کرتی ہے، اس کا ماننا ہے کہ یہ کانفرنس تعمیری مکالمے اور مشترکہ زندگی کی اقدار کو فروغ دینے، شہری اور انسانی کرامت کی اقدار کو بلند کرنے، مسلمانوں کی خود اپنے معاشروں میں شرکت مضبوط ہوگی نیز اپنیہم  وطنوں کے ساتھ بقائے باہمی کی راہیں بھی ہموار ہوں گی، جس سے دیگر ثقافتوں اور مذاہب کے ساتھ رابطے اور افہام و تفہیم کے پُل مضبوط تر ہوں گے۔
یہ کونسل اس بات کی بھی یقین دہانی کراتی ہے کہ یہ کانفرنس ان اہداف ومقاصد کو بھی شامل ہے جن کے حصول کے لیے کونسل دنیا بھر کی مسلم کمیونٹیز کے درمیان کام کررہی ہے، یعنی مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین مکالمے کو فروغ دینا، انسان کے عزت و احترام کے ساتھ رہنے کے حق اور پُر امن زندگی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے آواز اٹھانا، باہمی سمجھ بوجھ کو فروغ دینا، نیز رواداری، امن، اور باہمی احترام کی اقدار کے فروغ پر مبنی اسلام اور مسلمانوں کی ایک درست تصویر پیش کرنا۔ اس کانفرنس کے ذریعہ کونسل کے ان اغراض ومقاصد کی بھی تکمیل ہورہی ہے۔
اسی طرح، کونسل مسلمانوں اور دیگر افراد کو اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ وہ جہاں بھی رہیں اپنے معاشروں میں مثبت شمولیت اختیار کریں، اس کے تعمیر وترقی میں مثبت کردار ادا کریں نیز کونسل اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ ہر مسلمان کو ایک صالح شہری ہونا چاہیے جو اپنے ملک کی فلاح و ترقی میں بلا امتیاز یا تعصب اپنا کردار ادا کرے۔ کونسل فعال شمولیت کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ شہری اور سیاسی زندگی میں حصہ لیں اور اس بات پر  بھی زور دیتی ہے کہ شہریت محض ایک شناخت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے جو عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کا تقاضا کرتی ہے، اور ایسے اقدامات کرنے کا تقاضا کرتی ہے جو  وطن کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ تعمیری تعلقات کو فروغ دیں،تاکہ اس کی وجہ سے کسی بھی قسم کے خدشات یا غلط فہمیاں جو کہ ثقافتی یا مذہبی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہیں، وہ  دور ہو جائیں۔
’عالمی مسلم کمیونٹیز کونسل‘ تکثیریت وتنوع کے احترام اور مضبوط و مستحکم معاشروں کی تعمیر کے لیے اس  تنوع کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی بھی ترغیب دیتی ہے، ساتھ ہی اس طرح کی کانفرنسوں اور دیگر تقریبات کے انعقاد کی اہمیت پر بھی زور دیتی ہے تاکہ پائیدار عمل کی قدروں کو مستحکم کیا جا سکے جس سے  مسلمانوں اور ان کیہم وطنوں،دونوں کو  یکساں طور پر مستفید ہونے کے امکانات پیدا ہوں  اور  اپنے وطن میں ثقافتی اور مذہبی تنوع سے فائدہ اٹھانے نیز سب کے روشن مستقبل کے لیے مل کر کام کرنے کے مواقع  میسر آسکیں۔
اس کانفرنس اور اس کے منتظمین کی دنیا وآخرت میں  کامیابی و کامرانی کے لیے ہم اپنی نیک اور مخلص خواہشات کا اظہار کرتے ہیں!
نوٹ:مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام پینتیسویں آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس بعنوان’’احترام انسانیت اور مذاہب عالم‘‘کے سلسلے میں ڈاکٹر علی راشد النعیمی صدر’عالمی مسلم کمیونٹیز کونسل‘ابوظہبی، ریاستہائے متحدہ عرب امارات نے جو پیغامات و تاثرات پیش کئے تھے اسے افادیت کے پیش نظر نذر قارئین کیا گیاہے۔

 770 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے