فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالرحمن البعیجان،امام مسجد نبوی مدینہ منورہ
ترجمہ : مولانا سعیدالرحمن نورالعین سنابلی، جامعہ ابوبکر صدیق الاسلامیہ
اخوان افاضل، علمائے عظام،طلبۂ عزیز، قابل قدر دعاۃ اور اس کانفرنس میں شریک معزز حاضرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اللہ جل جلالہ و عم نوالہ آپ سب کو شاد و آباد رکھے، آپ کو صحت و عافیت بخشے اور ہماری اس ملاقات کو باعث مسرت و شادمانی بنائے۔ اللہ جل شانہ آپ حضرات سے راضی ہو اور آپ سب کو اپنی رضا سے شادکام کرے۔
میں آپ کی خدمت میں بلاد حرمین شریفین مملکت سعودی عرب سے حاضر ہوا ہوں جومہبط وحی ہے، مسلمانوں کا قبلہ ہے اوراُن کے دلوں کی دھڑکن ہے۔میں آپ کے حضور رسول اللہﷺ کے مقدس شہر مدینہ سے آیا ہوں جو آپﷺ کی جائے سکونت اور جائے ہجرت ہے اور انتہائی پاک وپاکیزہ شہر ہے۔میں یہاںاس عظیم الشان کانفرنس کے متعدد دینی، علمی، دعوتی اور تربیتی پروگراموں میں شرکت کرنے کے مقصد سے اپنے دل میں اخوت و بھائی چارہ، الفت و محبت اور خلوص و وفا کے پاکیزہ جذبات لے کر حاضر ہوا ہوں۔ اور سچ تویہ ہے کہ محبت اور ایمان کے جذبات مجھے ہمیشہ آپ کی طرف کھینچاکئے ہیں گرچہ ملکوں اور شہروں کی مسافت اور دوری بہت زیادہ ہے۔اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو ان لوگوں میں شامل فرمادے جومحض اس کی رضا کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے اس دن سایہ نصیب کریں گے جس دن اس کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا۔
برادران گرامی قدر!
میرے لئے یہ بات باعث شرف ہے کہ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیراہتمام منعقد ہونے والے مبارک اور عظیم الشان اجتماع میں حاضر ہورہا ہوں۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندبرصغیر کی سب سے بڑی، سب سے قدیم اور سب سے بڑی جمعیت ہے۔ نیز یہ دنیا کی اہم ترین دعوتی تنظیموں میں سے بھی ہے۔ جو اہل سنت کے منہج، کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کی دعوت اور سلف صالح کے فہم کی اساس پر قائم ہے۔اسی طرح یہ جمعیت حدیث و سنت اور اس کے علوم کے اہم ترین مدارس میں سے بھی ہے۔ بنابریں میں اس مبارک جمعیت کے علماء، طلبہ اور اس کے عمائدین و زائرین کی خدمت میں خصوصی سلام کا نذرانہ پیش کرتا ہوں۔
عزیزان من!
آج جس طرح اسلامی دنیا کو آپ کی جہود مبارکہ کی سخت ضرورت ہے، اسی طرح دنیا کو بھی صحیح عقیدہ اورایسے درست منہج کی سخت ضرورت ہے جو حق و عدل پر مبنی ہو اور جو اہل سنت والجماعت کا منہج ہے۔
اسلامی دنیا دعوت و ارشاد اور دینی شعور کی سخت پیاسی ہے۔اسی طرح دین میں نئے ایجاد کئے گئے طور طریقوں اور باطل شبہات کے خلاف محاذ آرائی کی بھی شدید ضرورت ہے اور آپ حضرات ہی اس دینی امانت اور دعوتی پیغام دینے کے حقیقی معنوں میں اہل ہیں۔
امام بخاری نے اپنی صحیح؍3461میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بلغوا عنی ولوآیۃ‘‘ یعنی میری طرف سے لوگوں کو پہنچادو، گرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ کے رسول ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ:’’یَحْمِلُ ہَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُولُہُ، یَنْفُونَ عَنْہُ تَحْرِیفَ الْغَالِینَ، وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِینَ، وَتَاْوِیلَ الْجَاہِلِینَ‘‘یعنی اس علم کو بعد میں آنے والے ہر طبقہ کے صاحب تقویٰ لوگ حاصل کریں گے وہ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریف ، جھوٹے لوگوں کی جعلسازی اور جہلا کی تاویل کی نفی کریں گے۔
اس حدیث میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ ہر زمانے میں غلاۃ، باطل پرستوں اور جاہلوں کی طرف سے سنت کو شدید حملوں کا سامنا ہوگا۔ یہ تینوں سنگین فتنے سنت کے خلاف ہمیشہ خطرہ بنے رہیں گے۔
ہم اللہ جل شانہ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کی کوششوں میں برکت عطا کرے، آپ کے ذریعہ اپنے دین کو غلبہ نصیب کرے، آپ کے ذریعہ اپنے کلمہ کو مضبوطی بخشے اور سنت کا غلغلہ فرمائے۔
دین اسلام آسمانی دین ہے جس کے ذریعہ اللہ نے سابقہ ادیان و مذاہب کو منسوخ کردیا اور جس کے ذریعہ خواہشات کے بندوںاور باطل نظریات کے حاملین کی کٹھ حجتیوں کو باطل کردیا، انسانوں پر حجت تمام کردی اور اس کے ذریعہ آسمانی شرائع کا سلسلہ ختم فرمادیا۔اسی دین کو دے کر سب سے افضل انسان نبی اور رسول محمد بن عبداللہ ﷺ مبعوث کئے گئے، آپ پر قرآن مجید نازل ہوا جو کہ اللہ کے پاس سے نازل ہونے والی کتابوں میں سب سے بہتر و برتر ہے۔ اللہ جل جلالہ نے اسے عمدہ اخلاق، اعلیٰ صفات ، بلند خصائل ، حیا، عزت، کرامت اور عظمت و وقار کا منبع قرار دیا ہے، نیز اسے وفائے عہد و امانت، صدق و اخلاص، عدل و خیرخواہی، احسان و فضل مندی کا سرچشمہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔‘‘(سورہ توبہ؍۳۳)
پیارے بھائیو
دین اسلام نے کرامت انسانی کا خصوصی پاس و لحاظ رکھا ہے،اور اس کے عظیم مقام و مرتبہ کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔اسی ضمن میں اس نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اس میں اپنی روح پھونکی، مقرب فرشتوں کے ذریعہ اسے سجدہ کرایا اور اس کے لئے مختلف و متنوع احکام و قوانین کامشروع کئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک انسان مٹی سے بنانے والا ہوں۔پھرجب میں اسے پورے طور پر بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔پھر سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔مگر ابلیس نے نہ کیا، تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔فرمایا اے ابلیس! تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، کیا تو نے تکبر کیا یا تو بڑوں میں سے تھا۔اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔فرمایا پھر تو یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندہ گیا ہے۔اور تجھ پر قیامت تک میری لعنت ہے۔‘‘(ص:۷۱۔۷۸)
انسانی کرامت اوراس کے بلند و بالا مقام و مرتبہ کے ضمن میں یہ بات بھی اللہ جل شانہ نے بیان کی ہے کہ اس نے انسان کو بہترین ڈھانچے میں صورت گری کی ہے اوراسے عمدہ شکل و شباہت میں بنایا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔‘‘(التین؍۱۔۴)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :’’اے انسان! تجھے اپنے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے مغرور کر دیا۔جس نے تجھے پیدا کیا پھر تجھے ٹھیک کیا پھر تجھے برابر کیا۔جس صورت میں چاہا تیرے اعضا کو جوڑ دیا۔‘‘(سورہ انفطار؍۶۔۸)
انسانی کرامت ، اس کے عز و شرف اور مقامِ بلند کے ضمن میں اللہ جل جلالہ نے بیان کیا ہے کہ اس نے انسان کو خصوصی مقام و مرتبہ عطا کیا ہے، اسے فضیلت بخشی ہے اور اسے زمین میں جانشینی عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں، فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔انہوں نے کہا تو پاک ہے، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایاہے، بے شک تو بڑے علم والا حکمت والا ہے۔فرمایا اے آدم ان چیزو ں کے نام بتا دو،پھر جب آدم نے انہیں اُن کے نام بتا دیئے فرمایا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہوں‘‘۔(سورہ بقرہ؍۳۰۔۳۳)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی کرامت، اس کی رفعت مکانی اور علوشانی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس نے تمام مخلوقات میں خصوصی طور پر انسان ہی کو مکلف بنایا ہے اور اسے ہی شرعی احکامات کا مخاطب قرار دیا ہے۔چنانچہ اس نے انسانوں کی طرف ہی رسولوں اور نبیوں کو مبعوث کیاہے اور آسمانی کتابیں نازل فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’البتہ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازوئے (عدل) بھی بھیجی تاکہ لوگ انصاف کو قائم رکھیں، اور ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں اور تاکہ اللہ معلوم کرے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی غائبانہ مدد کرتا ہے، بے شک اللہ بڑا زور آور غالب ہے۔‘‘(سورہ حدید؍۲۵)
انسانی کرامت، اس کے عز و شرف اور علو مرتبت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اللہ جل جلالہ و عم نوالہ نے اسے عقل عطا کرکے شعور و آگہی بخشی ہے، اسے زیور علم سے آراستہ کرکے ہدایت سے سرفراز کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہتوں پر فضیلت دی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی۔‘‘(سورہ اسراء؍۷۰)
چنانچہ جس کا مقام و مرتبہ اور رتبہ جس قدر بلند و بالا ہوگا اس کی کرامت لازما اس طور پر لائق اعتناء اور قابل توجہ قرار پائے گی اور اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
برادران ملت
دین اسلام نے انسانی کرامت کی حقیقت کو انتہائی زور دے کر بیان کیا ہے، انسان کے دل میں اس کی کرامت کا شعور پیوست کیا ہے، اس کے ساتھ اس کے لگاؤ اور وابستگی کو مضبوطی بخشی ہے اور اس کی حفاظت و صیانت کی تعلیم بھی دی ہے۔ یہی اس کی انسانیت کا جوہر، اس کی بشریت کا لب لباب اور شخصیت کی بنیاد ہے۔
اسلامی شریعت نے انسان کے دل میں یہ بات راسخ کردی ہے کہ وہ مخلوقات میں سب سے باعزت ہے، عظیم امانت اسی کے سپرد ہے، نیز اسے زمین کی جانشینی عطا فرمائی ہے تاکہ وہ اسے آباد کرے، اس میں انصاف کا ترازو قائم کرے، اللہ واحد کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک اور ساجھی نہ بنائے۔
اللہ کے بندو
دین اسلام نے انسان کی سعادت و کرامت اور عزت و ناموس کی صیانت،اس کے مصالح کے پاس و لحاظ اور اس کے حقوق کے تحفظ کو عظیم مقاصد شرعیہ میں شامل کیا ہے اور پانچ بنیادی ضروریات کی حفاظت پر خصوصی توجہ فرمائی ہے جو انسانی کرامت و اقدار کی بنیاد و اساس ہے بلکہ شرعی احکام کا انحصار ان ہی پانچ چیزوں پر ہے۔ وہ پانچ چیزیں ہیں: جان کی حفاظت، عقل کی حفاظت، دین کی حفاظت، آبرو کی حفاظت اور مال کی حفاظت۔
چنانچہ جملہ اسلامی اصول، تعلیمات اور اقدار و احکامات کرامت انسانی کے احترام اور اس کے تحفظ و بقاء کی اساس پر استوارکیے گئے ہیں جو اس کرامت کے تئیں شعور کو جلا بخشتی ہیں، نیزیہ کہ ان میں انسانی سعادت و نیک بختی کا پہلو نمایاں ہے اور ان میں انسانوں کے لئے منافع کے حصول اور مفاسد کے خاتمہ کا گُر موجود ہے۔
یہ نیک مقاصد شرعیہ اپنے جملہ مدلولات و مفاہیم کے اعتبار سے کرامت انسانی کی معراج ہیں اور جن کی وجہ سے کرامت انسانی کے باب میں دین اسلام دوسرے مذاہب و قوانین پر سبقت لے گیا ہے۔
امت کے جیالو!
دین اسلام نے انسانی سعادت و کرامت کا جو تحفظ کیا ہے اوراس کے مصالح کی جو رعایت کی ہے اس کی جلوہ گری کئی حوالوں سے نظر آتی ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے حقوق انسانی کا تحفظ کیا ہے۔ دین اسلام نے حقوق و واجبات کی ادائیگی پر حددرجہ زور دیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سارے احکامات مشروع کئے ہیں اور ان کی ادائیگی پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے جبکہ اس کے برعکس ان حقوق کے تئیں کوتاہی برتنے پر دردناک سزا کی وعید سنائی ہے۔فرمایا:’’پھر رشتہ دار اور محتاج اور مسافر کو اس کا حق دے، یہ بہتر ہے ان کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں۔‘‘(سورہ روم؍38)
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:’’اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔‘‘(سورہ اسراء؍26)
لہذا دین اسلام نے انسان کی کرامت اوراس کے مفادات کا تحفظ اور اس کے حقوق کی حفاظت اس کی پیدائش سے پہلے ہی کردی ہے۔چنانچہ ابھی وہ اپنے باپ کی پشت میں نطفہ کی حالت میں تھاکہ اس کے باپ کے لئے نکاح مشروع کیا، اس پربدکاری کو حرام کیا،اسے نیک اور دیندار بیوی کے انتخاب پر ابھارا اور میاں بیوی کے لئے بہت سے احکامات مشروع فرمائے۔
بعینہ دین اسلام نے انسانی کرامت کا تحفظ نطفہ کے شکم مادر میں داخل ہونے کے وقت سے ہی کیاہے چنانچہ اس حوالے سے مخصوص احکامات مشروع کئے اور ولادت سے لے کر بچپن، جوانی اور بڑھاپے حتی کہ موت اور تدفین تک کے لئے اس کے حقوق و واجبات مرتب کردیئے حتی کہ مرنے کے بعد بھی مسائل بیان کردیئے جبکہ وہ مٹی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔معلوم یہ ہوا کہ دین اسلام کرامت انسانی کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے حقوق کی پاسداری بھی کرتا ہے۔
انسانی کرامت اور اس کے متعلقات ان اہم امور میں سے ہیں جن کی حفاظت کے لئے اللہ جل جلالہ نے اپنے رسولوں کو مبعوث کیا اور آسمانی کتابوں کو نازل فرمایا۔ اللہ جل جلالہ نے اسے افراد اور اقوام سبھی کے حق میں واجب قرار دیا ہے۔ یہ کسی انسان کی نوازش یا عطیہ نہیں بلکہ اس کا پیدائشی حق ہے۔
یہ اسلام کے تہذیبی اقدار میں شامل ہے اور یہی انسان کے اندر عزت نفس اور دوسروں کی عزت و احترام کا شعور پیدا کرتا ہے جس کو اپنا کر ہی معاشرے میں امن و سکون، بقائے باہم اور اخوت و بھائی چارہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
برادران اسلام
اسلام میں انسانی کرامت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اس نے کرامت انسانی کے خلاف پر ہرقسم کی حسی اور معنوی زیادتی کو حرام قرار دیا ہے بلکہ ان احوال میں قصاص، جزاء اور سزا کو بھی لازم کیا ہے۔کرامت انسانی کو پامال کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ لوگوں کی عزتوں اور حرمتوں کے سلسلے میں زبان درازی کی جائے، ان کے حقوق تلف کئے جائیں، ان پر ظلم کیا جائے، انہیں طعن و تشنیع کا مورد ٹھہرایا جائے، ان کا کسی بھی طرح سے مذاق اڑایا جائے، انہیں تکلیف پہنچائی جائے، ان کے لئے غلط زبان استعمال کی جائے، ان کے خلاف بدگمانی پالی جائے، ان کے ساتھ کبرو غرور کا رویہ ادا رکھا جائے بلکہ اس کی نگاہ میں ہر حسی و معنوی ایذا رسانی اس ضمن میں آتی ہے۔
کرامت انسانی کا احترام اور اس کا تحفظ شرعی حکم ہے اور جہاں تک بعض معاشروں میں کرامت انسانی سے کھلواڑ کا معاملہ ہے تو وہ اسلامی تعلیمات سے دوری، جہالت اور پسماندگی کا شاخسانہ ہے۔یہ ذلت ، فتنہ اور انارکی کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں۔ ہم اللہ جل جلالہ سے سلامتی اور عافیتحاضرین کرام
خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہدحفظہما اللہ و رعاہما و ایدہما بنصرہ العزیزکی قیادت میں مملکت سعودی عرب اپنی دینی ذمہ داریوں اور عالم اسلام میں اپنے مقام و مرتبہ کے پیش نظر دنیا کے مختلف گوشوں میں امن و آشتی کے قیام اور کرامت انسانی کے تحفظ کے حوالے سے قابل قدر کوششیں صرف کررہی ہے۔ ہم اللہ جل شانہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کوششوں کو ثمر آور بنائے اور راست خطوط پر گامزن رکھے۔
اے میرے اللہ! تو مسلمانوں کے حالات درست فرمادے، اے اللہ! تو مسلمانوں کے حالات کو ٹھیک کردے، انہیں ان کے ملکوں میں امن نصیب فرما، ان میں اتحاد کی قوت پیدا کردے، اور حق کی بنیاد پر ان میں اتحاد پیدا کردے، ان کے دلوں کو جوڑدے اور ان کے آپسی تعلقات کو درست فرمادے۔ اے اللہ! انہیں اختلاف نیز ظاہری و باطنی ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ کردے۔ اے اللہ! ہمیں دنیوی زندگی میں بھلائی عطا کراور اخروی زندگی میں بھی بھلائی عطا کر اور جہنم کی آگ سے بچالے۔ و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین۔
نوٹ:مسجد نبوی مدینہ منورہ کے امام ہمام فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبدالرحمن البعیجان حفظہ اللہ رعاہ مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند کی دعوت پر 35ویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقدہ 9-10/نومبر 2024ء بمقام رام لیلا میدان،نئی دہلی میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے اور اس دو روز عظیم الشان کانفرنس کا افتتاح کیا تھا اور پرمغز ایمان افروز خطاب فرمایا تھا جس کا مختصر ترجمہ بروقت پیش کیا گیا تھا۔اب افادہ عام کے پیش نظر اس کا مفصل ترجمہ نذر قارئین ہے۔
2,111 total views