خودکشی کسی مسئلہ کا حل نہیں

ابوعدنان سعیدالرحمن نورالعین سنابلی

            اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوجو جسم عطا کیا ہے، وہ امانت ہے۔ ایسی امانت جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ روز قیامت پرسش فرمائے گا۔ شریعت اسلامیہ کے اصول و مبادی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ نعمت بیش بہا عطا کیا ہے اور اس نعمت کے تعلق سے اسے کچھ باتوں کا مکلف کیا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ انسان اپنے جسم کے تعلق سے آزاد ہے اور جیسے چاہے اس میں تصرف کرنے کا مجاز ہے۔ ایک انسان جس طرح دنیا میں خود کو وجود بخشنے پر قادر نہیں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے عدم سے وجود بخشتا ہے، اسی طرح سے اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے اپنی زندگی کو ختم کرے، اسے نقصان پہنچائے اور خودکشی جیسے جرم عظیم کا مرتکب ہو۔بلکہ ہر انسان پرواجب و ضروری ہے کہ وہ الٰہی عطیہ جسم کے تعلق سے  اللہ کے ذریعہ شریعت اسلامیہ میں بیان کردہ ضابطوں اور قواعد کا بالکلیہ پاس و لحاظ رکھے، ان کی پاسداری کرے اور اس میں بیجا تصرفات اور غیرشرعی اقدامات کرنے سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔

            خودکشی یعنی اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا کام تمام کرنا، اپنے آپ کو قتل کرنا یا اپنے آپ کو سماجی طور پر غیرپسندیدہ اور ذہنی طور پر ناجائز طریقوں سے ہلاکت میں ڈالنا۔اپنے آپ کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر اتنا نقصان پہنچانا کہ زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔موجودہ دور میں خصوصا کورونا وائرس جیسی عالمی وباء سے دنیا کے دوچار ہونے اور لوگوں کے مالی تنگی کا شکار ہونے کے بعد ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ دنیا کے ہرگوشے میں خودکشی کے واقعات میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر عمر کے لوگ اس کے لپیٹ میں آرہے ہیں۔ہر روز اخبارات میں درجن بھر سے زیادہ لوگوں کی خودکشی کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔سماج کے تمام طبقات سے وابستہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موت کو گلے لگارہی ہے اور خودکشی جیسا بزدلانہ عمل انجام دے رہی ہے۔ اس تعلق سے ٹی وی پر مباحثے بھی ہوتے ہیں۔ لمبے لمبے اداریئے لکھے جاتے ہیں اور اس کے اسباب و عوامل پر گفتگو ہوتی ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے مشورے دیئے جاتے ہیں لیکن سماج میں لوگوں کے درمیان خودکشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ خطرناک روپ اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔

            خودکشی کا بڑھتا رجحان:عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان خود کشی کر کے اپنی جان لے لیتا ہے۔ ہر سال خودکشی کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ عالمی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہ تعداد ایک لاکھ میں سے 16 بنتی ہے۔ خودکشی سے موت دنیا میں ہونے والی اموات کا 1.8 فیصد ہے۔ گزشتہ 45 برسوں میں خودکشی سے ہلاکتوں کی تعداد میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ خودکشی 15 سے 29 سال کے افردا کی اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

            عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق سری لنکا میں ایک لاکھ میں 34.6 فیصدافراد اپنی جان کا خاتمہ کرتے ہیں، گیانا میں یہ شرح 30.6 فیصدجبکہ مینگولیہ میں 28.1 فیصد ہے۔ وطن عزیز بھارت میں 16 فیصد ہے۔پڑوسی ملک پاکستان میں 2.5 فیصد افراد خودکشیاں کرتے ہیں جو کئی ترقی یافتہ ممالک سے بھی کم ہے۔ سویڈن 12.7 فیصد، سویٹزرلینڈ 10.7 فیصد، برطانیہ 7.4 فیصد جبکہ اسپین میں 6  فیصدافراد اپنی مرضی سے موت کے منہ میں جاتے ہیں۔

            خودکشی کے اسباب:سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ خودکشی جیسا انتہائی قدم کیوں اٹھاتے ہیں۔ خودکشی کے موضوع پر کئی کتابیں اور ریسرچ پیپر لکھے گئے جن میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ان میں ایرک مارکوس کی کتاب”Why Suicide”،جارج ہوری کولٹ کی کتاب”The Enigma of Suicide” اور سگنے ہیمر کی کتاب”After Suicide”قابلِ ذکر ہے۔

            اس میں بالکل دو رائے نہیں کہ خودکشی کرنے والا انسان اس وقت خود کشی تک پہنچتا ہے جب وہ ہر طرف سے اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے‘ ڈپریشن‘ محبت میں ناکامی‘گھریلو ناچاقی،شراب نوشی، انتقام، غصہ،سزا،قربانی،خودکش بمبار،معاشرتی رسم و رواج، صدمہ یا بیرونی خطرہ،معاشی تنگ دستی،جنسی مسائل اورصنفی تنازعات سمیت درجنوں ایسے معاملات ہیں جہاں سے مرنے والے کو خودکشی کی ترغیب ملتی ہے یا پھر وہ ان وجوہات سے خودکشی جیسا نفرت انگیز فعل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز ہندوستان کی موجودہ صورتِ حال میں بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شکاروطن عزیز کے ساٹھ فیصد سے زائد وہ نوجوان ہیں جو اداروں اور جامعات سے ڈگریاں لے کر نکل رہے ہیں مگر ان کے پاس نوکری ہے اور نہ ہی کوئی بزنس۔وہ صبح سے شام تک سی وی لے کر دفتروں‘اداروں اور فیکٹریوں میں دھکے کھاتے ہیں رات کوخالی ہاتھ گھرو ں کو لوٹتے ہیں،ایسے میں اگر انہیں گھر سے بھی سپورٹ نہ ملے تو یہ نوجوان کیا کریں گے؟ایک بنیادی سوال ہے۔ایسے لوگ چہارجانب سے ناکام و نامراد ہوکر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں۔

            خودکشی اور اسلام:خودکشی کے تعلق سے جب ہم شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام نے خودکشی کو کبیرہ گناہ قراردیا ہے اور اپنے متبعین کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ حالات کتنے ناہموار ہوں، بادسموم کے تھپیڑوں سے سامنا ہو، زندگی جنجال بن جائے، مصائب ہر طرف سے گھیرلے، ہرطرح کی امیدیں معدوم ہوجائیں، اس موقع پر بھی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے، ندامت کے آنسو بہائے، رب کے حضور گریہ وزاری کرے، توبہ کا دامن تھامے اور صبر جیسے فولادی ہتھیار سے مصائب کی پرتوں کو رفتہ رفتہ ہٹائے، ان شاء اللہ زندگی ضرور خوشگوار ہوگی اور امیدوں کے چمن میں باغ و بہار آئے گی اور مصائب سے ضرور چھٹکارا ملے گا کیونکہ یہ آزمائشیں عارضی ہوتی ہیں جس طرح سے یہ دنیا عارضی ہے، ان سے تنگ آکر انتہائی قدم اٹھانا اور خودکشی جیسا بزدلانہ عمل سقراط جیسے خدا بے زارفلسفیوں کا طریقہ ہوسکتا ہے،مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں ہے۔

            مسلمان مصائب پر اجروثواب کی امید رکھتاہے۔ایک مسلمان ہمیشہ مصائب کو رب تعالیٰ کی جانب سے آزمائش سمجھ کر خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور اس پر اللہ رب العزت سے اجروثواب کی امید رکھتا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان کو جو بھی بیماری، تکلیف، حزن وملال، اذیت اور غم پہنچتا ہے(ان مصائب پر صبر کرنے)کے صلے میں اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو مٹا دیتا ہے، (صحیح بخاری/5641)“۔

            عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟، عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ نے کہا: ضروردکھائیے،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا:یہ وہ سیاہ فام عورت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی:مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اس مرض سے شفا کی دعا فرمائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تمہیں اس مرض سے نجات دے دے۔ اس عورت نے عرض کیا: میں صبر کروں گی، اُس نے پھر یہ التجا کی: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ بس اتنی دعا فرمادیجیے کہ دورے کے دوران میرا ستر قائم رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی،(صحیح بخاری:5652)“۔

             جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب قیامت کے دن (دنیا میں)مصیبتیں برداشت کرنے والے لوگوں کو (اُن کے صبر پر) ثواب عطا کیاجائے گا تو (دنیا میں)عافیت میں زندگی گزارنے والے اس وقت تمنا کریں گے: کاش! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھالیں کاٹ دی گئی ہوتیں (اور وہ آج اس کا اجر پاتے)، (سنن ترمذی:2402)“۔

            آپ غور فرمائیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب و مشکلات پر صبر کرنے والوں کو کس قدر اجروثواب کی خوشخبری سنائی ہے اور بتایا ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں انسان کو پیش آنے والے مشکلات اس کے گناہوں اور سیہ کاریوں کے لئے کفارے کا سبب ہیں۔

            مصائب کے تعلق سے جب ایک انسان یہ سوچے گا کہ وہ اس کے گناہوں کے کفارے کا سبب ہیں تو خودکشی جیسی حرکت کے لئے کبھی بھی اقدام نہیں کرے گا۔ بلکہ وہ صبر و شکیبائی کے ذریعہ مصائب کا سامنا کرے گا۔

            خودکشی گناہ کبیرہ ہے:نیز خودکشی کو شریعت اسلامیہ نے گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ کتاب و سنت کے ذخیرے میں اس عمل سے سختی سے روکا گیا ہے اور اسے انجام دینے والے کو سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”ولا تقتلوا أنفسکم،ان اللہ کان بکم رحیما“(سورۃ النساء/۹۲) یعنی اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تم پر نہایت مہربان ہے۔

            مزید فرمایا:”ولاتلقوا بأیدیکم الی التھلکۃ وأحسنوا ان اللہ یحب المحسنین“(سورۃ البقرۃ/۵۹۱)یعنی اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

            اس کے علاوہ جب ہم احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت سختی سے اس حرام کام سے روکا ہے اور انسانیت کو اس بزدلانہ حرکت سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے اپنے آپ کو آہنی ہتھیار سے قتل کیا، تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور وہ ہتھیار اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گااور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا، تو وہ آتشِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور زہر پیتا رہے گا اور جس نے کسی پہاڑ سے گر کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور (جہنم کی گہرائیوں میں)لڑھکتا چلا جائے گا،(صحیح مسلم/109)“۔

            غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس سخت لہجے میں خودکشی سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ خودکشی کرنے والا انسان جس طریقہ سے اپنی زندگی کو ختم کرے گا، وہ ہمیشہ ہمیش جہنم کی آگ میں اسی حالت میں رہے گا، یہی اس کی سزا ہوگی اور اس مصیبت میں وہ مبتلا رہے گا۔

            ثابت بن ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جس نے دنیا میں اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا اسے قیامت کے روز اسی کا عذاب دیا جائیگا ”(صحیح بخاری /5700،صحیح مسلم /110)

             جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص زخمی تھا وہ اس کی تکلیف برداشت نہ کر سکا تو اس نے چھری لیکر اپنا ہاتھ کاٹ لیا اور خون بہنے کی وجہ سے مر گیا، تو اللہ تعالی نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی جان کے ساتھ جلدی کی ہے، میں نے اس پر جنت حرام کر دی ”(صحیح بخاری /3276صحیح مسلم/113)

            اسی طرح سے جابررضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپ کے ساتھ  طفیل بن عمرو دَوسی رضی اللہ عنہ اور اُن کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی، اس شخص کو مدینے کی آب وہوا راس نہ آئی، سو وہ بیمار ہوگیااور فریاد کرنے لگا۔پس (تکلیف سے بے قابو ہوکر)اس نے چوڑے پھل کا ایک تیر لیا اور اپنی انگلیوں کو جوڑوں سے کاٹ دیا۔ پھر اس کے ہاتھوں سے خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگیا۔ پھر اسے طفیل بن عَمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے خواب میں اچھی حالت میں دیکھا، اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا ہے، طفیل رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟، اس نے جواب دیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی برکت سے اللہ نے مجھے بخش دیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: یہ آپ کے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا،میں کیا دیکھ رہا ہوں؟، اس نے جواب دیا: مجھے فرمایا گیا: جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے، ہم ہرگز اسے درست نہیں کریں گے، پس جب طفیل نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کی خطا کو بھی بخش دے، (صحیح مسلم/116)“۔

            غور فرمائیے! وہ شخص تو صحابیئ رسول تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیّت میں اُسے ہجرت کے شرف سے نوازا تھا،لیکن اس کے باوجود اس گناہ کبیرہ وقبیحہ کی علامت کے طور پر اس کے ہاتھ پر کپڑے لپٹے ہوئے تھے، یعنی اپنی اصلی حالت پر صحیح سلامت نہیں تھے، اس لئے انہوں نے اس عیب کو چھپانے کیلئے انہیں لپیٹ رکھا تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خودکشی ایک سنگین گناہ ہے اور ہمیں اس کا وہم و خیال بھی اپنے دل میں نہیں لانا چاہئے کیونکہ یہ رب کی رحمتوں سے ہمیں دور کرتی ہے اور جہنم کا مستحق بنادیتی ہے۔

            خودکشی بیمار ذہنیت کی اپج اور بزدلی کی علامت ہے۔یہ اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔ اپنے ماتحتوں کو حوادث زمانہ کے رحم و کرم کے حوالہ کرنا ہے۔ خودکشی کرنے والا انسان نفسیاتی طور پر انتہائی کمزور ہوتا ہے۔ وہ اپنی اس حرکت کے ذریعہ اللہ کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے گرجاتا ہے، اسی طرح سے دنیا کی نظروں میں بھی ہمیشہ کے لئے مطعون بن جاتا ہے۔ لوگ اس کی خودکشی کے بارے میں بسا اوقات مختلف قسم کی چہ می گوئیاں کرتے ہیں تو کبھی اسے کمزور اخلاق کا مالک قرار دیتے ہیں اور یہ سچ ہے

آواز خلق نقارہ خدا

            سماج کے سربرآوردہ لوگ خودکشی کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھیں:خودکشی کی سنگینی کا اندازہ آپ اس امر سے بھی لگاسکتے ہیں کہ رحمۃ للعالمین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے انسان کے جنازے کی نماز پڑھانے سے منع کردیا تاکہ آپ اس عمل کی شناعت کو بیان کرسکیں اور ایسے افراد کی زجروتوبیخ ہوسکے جو ایسے غیرشرعی خیال کو اپنے دل و ماغ میں جگہ دیتے ہیں۔چنانچہ مشہور حدیث ہے۔جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:” رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو تیر کے ذریعہ قتل کر لیا تھا، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں فرمائی”(صحیح مسلم /978)

            امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ خودکشی جیسی نافرمانی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ نہیں ادا کی جائیگی۔عمر بن عبد العزیزاور اوزاعی رحمہما اللہ تعالی کا یہی مذہب ہے۔(البحرالرائق لابن نجیم۲/۵۱۲، مجمع الأنھر لشیخی زادہ ۱/۱۸۲، المغنی لابن قدامہ۲/۸۱۲)

            حسن بصری، نخعی، قتادہ، مالک، ابو حنیفہ، شافعی، اور جمہور علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا مسلک ہے کہ اس کی نماز جنازہ ادا کی جائیگی اور اس حدیث کا انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور سزا اور لوگوں کو اس طرح کے کام سے منع کرتے ہوئے خود تو نماز جنازہ ادا نہیں فرمائی، تاہم صحابہ کرام کو اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔(دیکھیں: شرح المسلم للنووی (۷/ ۷۴، شرح  فتح القدیر لابن الھمام ۳/۰۰۴، القرافی الذخیرۃ۲/۸۶۴،رسالۃ القیروانی۱/۴۵، کفایۃ الطالب۱/۸۵۱، نھایۃ الزین للجاوی۱/۹۴۱، فتح الوہاب۱/۸۲۵)

            خودکشی کرنے والا کافر نہیں ہے:یہاں ایک بات اس ضمن میں جاننا ضروری ہے کہ خودکشی عظیم گناہ ہے اور اس کی سنگینی پر کسی بھی فردبشر کا اختلاف نہیں ہے۔ البتہ خودکشی کرنے والا انسان کافر نہیں ہے جیساکہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے انسان کے تعلق سے ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنے کی بات کہی ہے اور کافر لوگ ہی جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے تو اس طرح خودکشی کرنے والا بھی کافر ہوگا۔لیکن اہل سنت والجماعت کی رائے یہ ہے کہ خودکشی کرنے والا انسان کافر نہیں ہے۔البتہ جن حدیثوں میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ خودکشی کرنے والا کافر ہوگا وہ حدیثیں یا تومنسوخ ہیں یا پھر ایسے انسان کے حق میں ہیں جو خودکشی کو حلال سمجھتا ہو تو وہ ضروری طور پر معلوم شیئ کا انکار کرنے کی بناء پر کافر قرار پائے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس جرم سے زجرو توبیخ کے لئے بیان کی ہو۔(ملاحظہ ہو: فتح الباری للحافظ ابن حجر العسقلانی۳/۷۲۲، شرح مسلم للنووی۱/۰۳۲، موسوعہ فقہیہ کوییتیہ۶/۱۹۲)

            یہ رہی معاشرے میں تیزی کے ساتھ پاؤں پسار رہے ایک انتہائی سنگین مرض خودکشی کے تعلق سے چند باتیں۔ حکومتوں پر ضروری ہے کہ وہ اس قبیح مرض کی روک تھام کے لئے موثر اقدام کرے اور معاشرے میں ہرشخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سماج و معاشرہ کے تئیں اپناواجبی فریضہ اورکردار ادا کرے تاکہ غربت و افلاس اور دیگر مسائل سے دوچار انسان اس انتہائی اقدام کے بارے میں نہ سوچیں۔ اللہ ہمیں توفیقات سے نوازے۔ آمین۔

 2,455 total views

One Comment on “خودکشی کسی مسئلہ کا حل نہیں”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے