معروف عالم دین  اور جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے ریکٹر شیخ عبدالمنان عبدالحنان سلفی کی وفات حسرت آیات

آج بتاریخ 23؍اگست 2020ء کو شب ایک بجے جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر ، نیپال کے ریکٹر، معروف عالم دین، کامیاب مدرس، ماہر خطیب، ماہنامہ السراج کے ایڈیٹر، معروف صحافی اور ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کےناظم اس دنیا فانی سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے

موصولہ اطلاعات کے مطابق مولانا کچھ دنوں سے بیمار تھے۔ ٹائی فائڈ بخار میں مبتلا تھے۔شوگر اور دیگر عوارض سے صحت کافی متاثر ہوچکی تھی۔تمام کوششوں اور علاج و معالجہ کے بعد بھی رو بہ صحت نہ ہوسکے اور قضائے الٰہی کو لبیک کہتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ فرماگئے۔

مولانا عبدالمنان سلفی صاحب جامعہ سراج العلوم السلفیة جھنڈا نگر نیپال کے وکیل الجامعہ ، ماہنامہ السراج کے مدیر اور ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے ناظم  تھے ۔ 1986 ء میں آپ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر سے وابستہ ہوئے اور اس کے بعد سے آپ نے جو علمی ، صحافتی اور دعوتی خدمات انجام دی ہیں وہ بہت نمایاں اور سنہری حروف میں لکھا جانے والا کارنامہ ھے ۔ بلکہ جامعہ سے آپ کی پہچان اس قدر گہری تھی کہ ملک و بیرون ملک منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں اکثر جامعہ کی نمائندگی آپ ہی کیا کرتے تھے۔

آپ کی  پیدائش ماہ دسمبر سن 1959 ء میں ہوئی ۔ آپ کی فراغتِ تعلیم جامعہ سلفیہ بنارس سے 1982ء کی ھے ۔ اس کے بعد تدریسی خدمات کے لئے  مقام گلہریا کو پہلے شرف حاصل ہوا ۔ پھر جامعہ اسلامیہ سنابل ،نئی دہلی دہلی میں رہے ۔اس کے بعد مدرسہ خدیجۃ الکبری میں شیخ عبداللہ مدنی رحمہ اللہ کی معیت میں کام کیا ۔ اور اپنے آخری مقر عمل میں 34 سال تک جامعہ سراج العلوم کے ریکٹر کی حیثیت سے اس کے درو بام کے مالک و مختار رہے اور طلباء و علماء کے شانہ بشانہ خدماتِ زرّیں و علمی  انجام دیتے رہے  اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ کی ایسی خدمت انجام دی کی آپ جھنڈا نگر کی پہچان بن گئے۔

مولانا رحمہ اللہ گوناگوں خصوصیات کے مالک تھے ۔ بلکہ جس شعبہ کو تھاما، اس کا پورا حق ادا کیا ۔ آپ ایک مشفق اور لائق وفائق استاد تھے ،  ایک قادرالکلام مقرر اور باحث و محقق بھی تھے ۔ نامور مصنف و مدبر تھے تو یکتائے روزگار صحافی اور مخلص داعی بھی تھے ۔ آپ ایک بیدار مغز منتظم تھے  اورقوم و ملت کے سب سے بڑے بہی خواہ بھی تھے ۔یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی آپ کی وفات کی خبر آئی ہندو نیپال بلکہ پڑوسی ملکوں میں بھی ماحول سوگوار ہوگیا۔جماعت کے نامورعلمائے کرام ، عظیم شخصیات اور طالبان علوم نبویہ نے مولانا کی وفات کو ملک و ملت کا عظیم نقصان قرار دیا اور آپ کی وفات کی پر اظہار تعزیت کیا ہے

چنانچہ اس سلسلے میں مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے اپنے فیس بک پوسٹ کے ذریعہ تعزیتی پیغام میں لکھا  ہےکہ نہایت افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر، نیپال کے ایک نامور استاد، اور وکیل الجامعہ، ماھنامہ السراج کے ایڈیٹر اور ضلعی جمعیت اہلحدیث سدھارتھ نگر کے ناظم، معروف صاحب قلم، بہترین خطیب جناب مولانا عبدالمنان صاحب سلفی کچھ دنوں سے سخت علیل تھے، ٹائی فائڈ بخار میں مبتلا تھے، شوگر اور دیگر عوارض کی وجہ سے صحت کافی متاثر ھوچکی تھی. تمام تر کوششوں اور علاج ومعالجہ کے باوجود رو بصحت نہیں ہو سکے اور بالآخر قضائے الہی کو لبیک کہتے ہویے چند منٹ قبل تقریبا ایک بجے شب اللہ کو پیارے ہو گیے۔

جماعت کے ایک نامور عالم دین مولانا عبدالمعید علی گڑھی نے اپنے فیس بک تعزیتی پیغام میں لکھا کہ مولانا کاشماربھارت کے اھل حدیث علماء کے اعلی طبقے میں ہوتا تھا ۔وہ متنوع صلاحیتوں کے مالک تھےوہ مدرس بھی تھے خطیب بھی تھے صحافی بھی تھےمصنف بھی تھے اچھے منتظم کار بھی تھے ۔ وہ سراج العلوم جھنڈانگر کے روح رواں تھے۔ باشعور‌اور بالغ نظربھی تھے ۔خطے کی سماجی سیاسی دعوتی تعلیمی سرگرمیوں سے آگاھی رکھتے تھےاور ایک رایے بھی رکھتے تھے- ایک باخبر اور ذمہ دار عالم کی حیثیت سے انھوں نےزندگی گذاری،اور بہتوں کے لیے مشعل راہ رہے ۔انکے نمایاں علمی دعوتی صحافتی تدریسی اورسماجی کام ہیں۔ 

صوبائی جمعیت اہل حدیث بہار کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا انعام الحق مدنی نے اپنے فیس بک پوسٹ پر مولانا کی وفات کے موقع پر مولانا کی شخصیت، اپنی بے تکلفی اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

سورج ھوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤ ں گا                       ڈوب بھی گیا تو پیچھے شفق چھوڑ جاؤں گا

(شیخ عبدالمنان سلفی ایک آفتاب تھا جو غروب ھوگیا) پتہ نہیں شیخ مرحوم کی شخصیت میں وہ کون سا جادو تھا کہ ہرشخص کھنچتا چلاجاتا تھا، وہ بیک وقت ماہر منتظم، کہنہ مشق مدرس، کامیاب خطیب، جہاندیدہ عالم، تجربہ کار ناظم، سیال قلم کار، پختہ کار صحافی، مؤثر داعی، منجھے ہوئے ادیب، سنجیدگی کی تصویر، صلاحیت اور صالحیت کے علمبردار، ہنس مکھ، ملنسار اور بڑے خاکسار انسان تھے، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تمام بڑے پروگرام میں شرکت فرماتے اور خطابت کے ساتھ نظامت کی ذمہ داری بدرجہ احسن نبھاتے، مجھے یاد ہے  پاکوڑ کانفرنس میں اگر دوسرے ناظم کے پہنچنے میں دیر ہوتی اور پروگرام وقت پر شروع کرانا ہوتا تو شیخ مقیم فیضی رحمہ اللہ اور پروگرام مینیجر حافظ طاہر سلفی صاحب شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کو مکلف کرتے اور شیخ بہتر طریقے سے اس فریضے کو انجام دیتے، اللہ تعالیٰ نے طبیعت میں مزاح کا جذبہ بھی رکھا تھا، اھل حدیث کمپلیکس دہلی میں معاصرین ہمنواؤں کے ساتھ ھم کلام تھے، شیخ نے چہرے پہ تبسم بکھیرتے ھوئے فرمایا کثرت اولاد کے سلسلے میں میں تمام سلفی ساتھیوں میں اول نمبر پر ہوں، لوگ مجھے کثیر العیال کہتے ھیں پھر سارے احباب اپنے اپنے بچوں کی تعداد بیان کرنے لگ گئے، ، شیخ کا اس طرح ساٹھ سال کی عمر میں اٹھ جانا جماعت جمعیت اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے ساتھ ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ ھے، اللہ تعالیٰ آپ کی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے اور جنت الفردوس کا مکین بنانے، حق مغفرت کرے بڑی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

برطانیہ میں مقیم معروف داعی اور عالم دین مولانا شیرخان جمیل احمد نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں مولانا عبدالمنان سلفی کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ عبدالمنان سلفى جھنڈانگری رحمه الله كے سانحہ انتقال کی خبر پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے اپنے کسی قریب ترین عزیز بزرگ کا انتقال ہوگیا ہے۔ نہ جانے اس خبر نے مجھے کیوں اتنا زیادہ نڈھال کردیا ہے۔ خبر پڑھ کر بے ساختہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ بیٹیوں نے آنسو دیکھ کر پوچھا کیا ہوا ؟ انہیں بتایا کہ میرے ایک محسن بزرگ عالم دین کا ابھی ابھی انتقال ہوگیا ہے۔ إنا لله وإنا اليه راجعون۔

شیخ واقعتا کیا ہی عظیم انسان تھے۔ عالمانہ شان بان کے ساتھ محبت وشفقت کا پیکر تھے۔ آپ کے اندر صلاحیت کے ساتھ صالحیت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مسلک میں بہت کھرے تھے۔ متحرک داعی تھے، بہترین خطیب تھے، نڈر صحافی تھے، کہنہ مشق مدرس تھے، عظیم دانشور تھے، بہترین منتظم تھے۔ ہر اچھے کام میں اور ہر مجلس میں نمایاں نظر آتے تھے۔ ابھی قریب میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کی صد سالہ کانفرنس کے وقت شیخ کو بہت قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔ بڑے مہمان نواز، جذبہ خدمت سے سرشار، پیار ومحبت سے لبریز، خلوص کے پیکر، نہایت شفیق انسان تھے۔ اتنی زیادہ صلاحیتیں اور اعلی صفات اور خدمات کے باوجود آپ کا نہایت متواضع اور منکسر المزاج ہونا آپ کے دیندار اور متقی ہونے کا واضح ثبوت تھا۔ مجھے بہت ہی عزیز رکھتے تھے۔ مسلسل رابطہ رکھتے تھے۔

جماعت کے ایک معروف عالم دین مولانا عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی نے اپنے فیس بک پر مولانا کی وفات اور آپ سے اپنے والہانہ لگاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم تو آپ کی نگاہوں کے سامنے پلے بڑھے۔۔آپ سے علم حاصل کیا،بڑی انسیت تھی، وہ ھندونیپال ترائی سرحد کی جان تھے۔۔ھر دم رواں دواں۔جماعت ۔۔منھج۔۔۔عقیدہ۔۔۔۔۔سراج العلوم ۔۔۔۔۔بڑھنی،، نوگڈھ ۔۔ھرجگہ بالکل ہلچل ۔ایک دعوتی قافلہ لئے اللہ کی راہ میں بے لوث مگن ۔۔۔

**شیخ محترم کی پیدائش ھمارے مرکز تاریخ اھل حدیث انڈیا کے ریکارڈ کے مطابق دیسمبر 1959ء ھے۔اپنے آبائی گاوں انتری بازار میں ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں داخلہ لیا، اور یہیں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لئے بنارس گئے اورپھر1982ءمیں جامعہ سلفیہ سے فارغ ھوئے۔اسکے بعد بزرگوں کی میراث، خاندانی روایت تدریس کے فریضے سے لگ گئے،، گلھریا، سنابل دھلی، خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگر اورپھر 1996ء سے مسلسل آج تک جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر سے ایسے جڑے کہ جھنڈانگر آپکی پہچان بن گیا۔۔۔ضلعی جمعیت اھل حدیث سدھارتھ نگر کے دوٹرم سے زائد ناظم تھے۔۔پورے ضلع میں دعوت، تعلیم اورجماعت کی ھرطرح سے آبیاری کی اورپورے ملک میں ضلعی جمعیت کو ایک بلند مقام تک پہنچایا۔۔۔۔۔۔السراج ۔۔۔۔۔۔جامع مسجد جھنڈانگر میں خطبہ جمعہ اوردروس ۔۔۔۔۔۔کیا کیا بتاؤں ۔۔۔۔۔سب رخصت ھوچلے ۔۔

آج قضا پوری ھوچلی ۔۔۔اوربٹول راستے میں جاتے ھوئے راھی ملک بقا ھوچلے۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ

 مولانا کی وفات کے موقع پر نوشتہء دیوار کی ٹیم بھی غمزدہ ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی بخشش فرمائے، آپ کو جنۃ الفردوس الاعلیٰ میں جگہ نصیب فرمائے ، آپ کی بشری لغزشوں پر عفو کا قلم پھیردے، آپ کی نیکیوں کو قبول فرمائے،آپ کے پسماندگان اور وابستگان کو صبرجمیل کی توفیق بخشے ۔آمین یا رب العالمین۔

 3,090 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے