سپریم کورٹ میں تین ججوں کی بینچ کی صدرات کررہے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا ہے کہ اس چینل کی طرف سے کئے جارہے دعوے بھیانک اور انتہائی خطرناک ہیں اور ان سے یو پی ایس سی امتحانات کے اعتماد پر بٹہ لگ رہا ہے اور اس سے ملک کو نقصان ہوگا۔
جسٹس چندرچوڑ نے کہا: ایک اینکر آکر کہتا ہے کہ ایک خاص مذہب کے لوگ یو پی ایس سی میں دراندازی کررہےہیں کیا اس سے زیادہ خطرناک بات کچھ اور ہوسکتی ہے۔ ایسے الزامات سے ملک کے استحکام پر فرق پڑے گا اور یو پی ایس سی امتحانات کی شفافیت پر حرف آتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہر وہ انسان جو یو پی ایس سی کے لئے درخواست دیتا ہے، وہ ایک متعین طریقہ سے چن کر آتا ہےاور یہ کہنا کہ دیش کے اندر ایک خاص مذہب کے لوگ سول سروسز میں دراندازی کررہے ہیں، یہ دیش کے لئے بے انتہائی نقصان دہ ہے۔
سپریم کورٹ اس معاملہ کی بدھ کے دن دوبارہ سماعت کرے گا۔
ہائی کورٹ نے لگائی تھی روک، وزات انفارمیشن نے دی تھی اجازت-
سدرشن نیوز کے جس پروگرام کو لے کر اختلاف تھا ،اس میں نوکرشاہی میں ایک خاص مذہب کے لوگوں کی بڑھتی تعداد کو ایک سازش بتایا گیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ نے اس پروگرام پر 28؍ اگست کو روک لگا دی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء کی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کے جج نوین چاولہ نے اس پروگرام کو نشر کئے جانے کے خلاف اسٹے آرڈر جاری کیا تھا۔مگر 10؍ ستمبر کو مرکزی وزارت برائے اطلاعات نے چینل کو اس پروگرام کو نشر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران مرکزی وزارت برائے اطلاعات و نشریات نے کہا تھا کہ انہیں سدرشن نیوز کے اس پروگرام کے خلاف کئی شکایتیں موصول ہوئی ہیں اور وزارت نے نیوز چینل کو نوٹس جاری کرکے اس پر جواب طلب کیا ہے۔
10؍ستمبر کو وزارت نے وضاحت کی تھی کہ سدرشن چینل کے سربراہ اعلیٰ سریش چوہان نے 31؍اگست کو اپنا جواب داخل کیا تھا جس کے بعد وزارت نے فیصلہ لیا تھا کہ اگر پروگرام کے مواد میں کسی طرح قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو چینل کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
وزارت نے یہ بھی کہا ہے کہ پروگرام کے نشر سے پہلے اس کی اسکرپٹ نہیں طلب کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کے نشر پر روک لگائی جاسکتی ہے۔
اس حکم کے مطابق سدرشن چینل نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کی روک ٹی وی پروگراموں کو نشر کرنے سے پہلے اس پر سنسرشپ لاگو کرنا جیسا ہے۔
وزارت نے اپنے حکم میں واضح کیا کہ قوانین کے مطابق ٹی وی پروگراموں کی پری سنسرشپ نہیں کی جاتی۔پری سنسرشپ کی ضرورت فلم، فلمی نغموں، فلموں کے پروموشن، ٹریلر وغیرہ کے لئے ہوتی ہے جنہیں سی بی ایف سی سے سرٹیفیکٹ لینا ہوتا ہے۔
وزارت نے سدرشن چینل کو یہ ہدایت دی تھی کہ اس بات کا دھیان رکھیں کہ کسی بھی طرح پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی نہ ہو، ورنہ اس کے خلاف قانونی کاروائی ہوسکتی ہے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
سدرشن چینل نے 25 اگست کو ایک ٹیزر جاری کیا تھا جس میں چینل کے ایڈیٹرنے یہ دعویٰ کیا تھا کہ 28؍اگست کو نشر ہونے والے ان کے پروگرام ’’بنداس بول‘‘ میں ایگزیکیٹیوکے سب سے بڑے عہدوں پر مسلم دراندازی کا پردہ فاش کیا جائے گا۔
اس کے بعد ہندوستانی پولیس سیوا کے افسران کی تنظیم نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیرذمہ دارانہ صحافت قرار دیا ۔
پولیس سدھار کو لے کر کام کرنے والی ایک آزاد تھنک ٹینک انڈین پولیس فاؤنڈیشن نے بھی اسے اقلیتی امیدواروں کے آئی اے ایس اور آئی پی ایس بننے کے بارے میں ایک نفرت انگیز کہانی قرار دیتے ہوئے امید جتائی تھی کہ براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھاریٹی ، یوپی پولیس اور سبھی سرکاری تنظیمیں اس کے خلاف سخت کاروائی کریں گی۔
حالانکہ سدرشن چینل کے ایڈیٹر سریش چووان نے آئی پی ایس ایسوسی ایشن کے تبصرے پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے بنا مدعے کو سمجھے اسے کچھ اور شکل دے دی ہے۔ انہوں نے تنظیم کو اس پروگرام میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی تھی۔
سیاسی مبصر تحسین پنے والا نے اس پروگرام کے بارے میں دہلی پولیس سے شکایت درج کرائی تھی۔
پنے والا نے ساتھ ہی اس کے بارے میں نیوز براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (این بی اے) کے صدر رجت شرما کو ایک خط لکھ کر ان سے اس پروگرام کو رکوانے اور سدرشن نیوز اور اس کے ایڈیٹر کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی درخواست کی تھی۔
دہلی کی سنٹرل یونیورسیٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ نے بھی ایک بیان جاری کر یونیورسٹی انتظامیہ سے اس بارے میں ہتک عزت کا معاملہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
آئی اے ایس اور آئی پی ایس آفیسران نے کی تھی مذمت
چھتیس گڑھ کے آئی پی ایس آفیسر آر کے وج نے اس پروگرام کے ٹیزر پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے قابل مذمت اور افسوسناک بتایا تھا اور کہا تھا کہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئیوں پر غور خوض کیا جائے گا۔
چھتیس گڑھ کیڈر کے آئی اے ایس آفیسر اونیش شرن نے بھی اس شو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس پروگرام کو بنانے والے کے اس مبینہ پردہ فاش کے ذرائع اور اس کی باوثوق ہونے کے بارے میں سوال کیا جانا چاہئے۔
پانڈی چری میں تعینات آئی پی ایس آفیسر نیہاریکا بھٹ نے لکھا تھا کہ دھرم کو بنیاد بناکر آفیسروں کی ایمانداری پرسوال کھڑا کرنانہ صرف مضحکہ خیز ہےبلکہ اس پر سخت کاروائی ہونی چاہئے۔ہم سب سے پہلے ہندوستانی ہیں۔
ہریانہ کے آئی اے ایس آفیسر پربھ جوت سنگھ نے لکھا تھا کہ پولیس اس شخص کو گرفتار کیوں نہیں کرتی اور سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ یا اقلیتی کمیشن یا یوپی ایس سی اس پر از خود نوٹس کیوں نہیں لیتی؟ ٹیوٹر انڈیابرائے مہربانی کاروائی کرے اور اس اکاونٹ کو معطل کرے۔یہ ہیٹ اسپیچ ہے۔
بہار پورنیہ کے ضلعی آفیسر راہل کمار نے لکھا تھا کہ یہ بولنے کی آزادی نہیں ہے۔یہ زہر ہے اور قانونی اداروں کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ میں ٹویٹر انڈیا سے اس اکاونٹ کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔
قومی جانچ ایجنسی این آئی اے کے افسر راکیش بلول نے لکھا تھا کہ ہم سول سیوا آفیسران کی کوئی پہچان اگر ہوسکتی ہے تو وہ ہے ہندوستان کا قومی جھنڈا۔
826 total views