آج بتاریخ 12جولائی 2020ءصبح کی اولین ساعتوں میں معروف مفسر، مفتی، مصنف، شارح قرآن و سنت، متعدد علمی و تحقیقی اداروں کے سرپرست اعلیٰ اور سابق مدیر ہفت روزہ الاعتصام لاہور حافظ صلاح الدین یوسف اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پریس کے لئے جاری تعزیتی بیان میں امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے ان کی وفات حسرت آیات پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے علم و تحقیق کی دنیا کا ناقابل تلافی خسارہ قرار دیا ہے۔امیر محترم نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا ہے کہ عالم اسلام کے نامور عالم دین، دنیائے علم و تحقیق کی مایہ ناز ہستی، عظیم مفسرقرآن، محدث زماں،بلندپایہ فقیہ و متکلم اسلام، ملت اسلامیہ کے سرمایہ افتخاراوربہت ساری مفید دینی ، علمی ، تربیتی اور اصلاحی کتابوں کے مصنف و مترجم علامہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اب ہمارے بیچ نہیں رہے۔حافظ صاحب کے اس دارفانی سے کوچ کرجانے کی خبرسے پوری دنیا خصوصا برصغیر غم و اندوہ میں ڈوبا ہواہے۔للہ ما اعطی وللہ ما اخذ و ما نقول الا ما یرضی ربنا۔انا للہ ا نا الیہ راجعون۔
آپ کی وفات سے جوعلمی ،اصلاحی،تربیتی اور منہجی و تحقیقی خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونامشکل ترین نظرآرہا ہے کیونکہ آپ کی شخصیت گوناگوں صلاحیتوں کی حامل تھی۔آپ مسلک و منہج میں زر خالص اور لولوئے آبدارتھے جو بحار علم اور انہار فکروفن اور محیط فقہ و ادب میں غوطہ زنی اور شناوری اور ہم نشینی کے عوض پروان چڑھے تھے۔آپ کی فکر میں سنجیدگی و متانت، خیالات میں انتہائی پاکیزگی اورعلم میں گہرائی تھی اور ”انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء“ کے بموجب خشیت الٰہی اور رسوخ فی العلم میں معروف اور مشہور علمائے وقت ،اولیاءاللہ، علماءراسخین کی صحبت کیمیا اثر سے کندن وحقیقی جوہربن کرکے نکلے تھے جسے محدث بھوجیانوی رحمہ اللہ جیسے اہل علم و فکر نے اور زیادہ نکھار دیا تھا۔آپ کی زبان و بیان اور اسلوب نگارش نہایت سنجیدہ ،جاذب ،علمی و تحقیقی اوربے نظیرہے جس کی چاشنی اور اثرانگیزی از دل خیزد بردل ریزد کا بھی صحیح مصداق ہے۔یوں تو ان کی ساری تصنیفات بے مثال اور لاجواب ہیں لیکن تفسیر احسن البیان بیت القصید کی حیثیت رکھتی ہے، وہیں آپ کی جوانی کی تحریرخلافت و ملوکیت اپنے موضوع پر شاہکار ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عالم ربانی حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی شخصیت علم کا یگانہ ¿ روزگارتھی سمندر تھا۔ اس کی گواہی ان کی بے مثال اور مقبول عام و خاص دینی و علمی اور تحقیقی ومفید تالیفات و تصنیفات دیتی ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنی حیات مستعار کو نچھاور کررکھا تھا۔ حافظ صاحب نے اپنے پیچھے خاصی تعداد میں منہجی ،علمی کتب چھوڑیں جو ان کے لئے قیامت تک صدقہ جاریہ بنی رہیں گی۔
آپ کا نام حافظ محمد یوسف اور قلمی نام حافظ صلاح الدین یوسف تھا۔ آپ کی ولادت راجستھان کے شہر جے پور میں 1945ءمیں ہوئی۔ آپ نے حفظ قرآن کریم کے ساتھ دارالعلوم تقویة الاسلام سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے فضیلت کی سند حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی،قاری بشیراحمد تبتی، قاری عبداللہ بلتستانی، حافظ محمد اسحق، حافظ عبدالرشید گوبڑوی، مولانا عبدالرشید مجاہد آباد اور مولانا عبدالحمید کے اسمائے گرامی اور اساطین علم و فن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
آپ کے چند چیدہ تصانیف میں تفسیر احسن البیان ،مکمل ترجمہ قرآن مجید،دلیل الطالبین : اردو ترجمہ و فوائد ریاض الصالحین للامام نووی، خلافت و ملوکیت ، تاریخی وشرعی حیثیت، جنازہ کے احکام و مسائل و مسئلہ ایصال ثواب، فتنہ ¿ غامدیت، نفاذ شریعت کیوں اور کیسے؟، توحید اور شرک کی حقیقت، نماز محمدی اہم اور قابل ذکر ہیں۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی خدمت اور دین اسلام ، شعائر دین، سنت نبوی علی صاحبھا افضل الصلاة والتسلیم اور صحابہ و اہل بیت کی حرمت کے دفاع کا یہ عظیم علمی و تحقیقی سفر سات دہائیوں پر مشتمل رہا۔
ویسے تو وہ یکے بعد دیگر معاشرے اور حالات کی ضرورت و تقاضے کے مطابق علمی و تحقیقی کتابیں منظرعام پر لانے میں ہمیشہ مشغول رہے تھے جس سے شریعت کے صحیح منہج کے حاملین خوب خوب استفادہ کرتے تھے۔ان دنوں وہ اپنے مشہور زمانہ مختصر تفسیر احسن البیان کو تفصیل کے ساتھ لکھنے اور اسے ایک مطول تفسیر کی شکل دینے میں مصروف تھے اور اسے جلد سے جلد مکمل کرلینا چاہتے تھے تاہم رب کوکچھ اور ہی منظور تھا۔اس مفصل تفسیر کی تکمیل سے قبل ہی رب کا بلاوا آگیا اور وہ دین حنیف اور منہج قرآن و سنت کا خادم اپنے رب کے حضور پہنچ گیا۔
امیر محترم نے اپنے تعزیتی بیان میں مزید کہا کہ آپ کی جدائی کے غم نے اسلاف کی سانحات وفات کو جہاں زندہ کردیا،وہیں پچھلے دنوں علماءکی کثیرتعداد کی جدائی اور اس کے پاداش میں لاحق غموں کو دوبالا کردیااور اس جے پوری عالم اور پاکستانی فاضل اجل کی موت نے علامہ یوسف جے پوری رحمة اللہ جیسے علماءکرام کی وفات کے غم کومدتوں بعدپوری جماعت و ملت کے لئے تازہ کردیا اور ”ان الشجا یبعث الشجا“ کی صورت پیدا کردی۔درحقیقت آپ کی موت سے جو خلا واقع ہوا ہے اور جو نقصان ہوا ہے اور غم و اندوہ کے بادل چھا گئے ہیں،وہ صرف جماعت اہل حدیث یا پاکستان کے لئے ہی سانحہ اور صدمہ عظیم نہیں ہے بلکہ برصغیر اورپورا عالم اور ساری قوم ہی مغموم ہے اور اس کا کا خسارہ عظیم ہے۔
وماکان قیس ھلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تھدما
اس سانحہ عظمیٰ پر میں ذاتی اور جماعتی طور پر خود تعزیت اور تسلی کا محتاج ہوں اور اپنے آپ کومسکین محسوس کررہا ہوںتاہم مکتبہ دارالسلام اور اس کے روح رواں برادر مکرم فاضل گرامی قدر جناب عبدالمالک مجاہد اور مکتبہ معروفہ کے اسرہ کریمہ اور علامہ مرحوم کے تمام معزز اہل خانہ و اقارب کے ساتھ پوری جماعت و جمعیت اہل حدیث ہند و پاک خصوصا وہاں کے علمائے کرام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوںاور سب کے صبر و سلوان کے لئے دعا گو ہوں۔
بلاشبہ آپ کی وفات سے عالم اسلام میں عموما اور برصغیر ہندو پاک میں خصوصا علمی و تحقیقی خلا پیدا ہوگیا ہے۔ رب العالمین اپنے قرآن اوراپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خادم کی مغفرت فرما،آپ کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت بخش، اعلیٰ علیین میں انبیاءو شہدا اور صلحاءکے ساتھ ان کو فردوس اعلیٰ عطا فرما،تو قادر مطلق ہے اور تیرے خزانہ میں علم و دولت اور کسی چیز کی کمی نہیں ، تو ان کا عالم اسلام کو نعم البدل عطا فرما۔تیرے دین کا خادم تیرا یہ بندہ تیرے حضور حاضر ہے اور بتقاضائے بشریت کوتاہیوں سے مبرا نہیں تیرے علاوہ منزہ کون ہے؟تو اپنے عفو و کرم اور مغفرت کے بحربے بیکراں اور وسعت بے پایاں سے کرم و فضل کا معاملہ فرما۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے دیگر تمام متعلقین و منسوبین نے بھی حافظ صاحب کے انتقال پر اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ و متعلقین کو دلی تعزیت پیش کی ہے اور مرحوم کی مغفرت اور بلندیء درجات کے لئے دعا کی ہے اور مختلف مسجدوں میں نماز جنازہ غائبانہ کا اہتمام کیا ہے۔
2,498 total views