نوشتہ دیوار
ہندوستان کی معروف دینی، تعلیمی، رفاہی اور سماجی شخصیت ڈاکٹرعبدالباری صاحب 9/ جولائی جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب 11 بجے لکھنو کے ایک اسپتال میں انتقال فرماگئے۔ڈاکٹرصاحب ایک باشعور عالم، کامیاب معالج اورسنجیدہ فکر مدبر ومربی کی حیثیت سے معروف تھے۔ آپ کی پوری زندگی حرکت و عمل و نشاط سے عبارت تھی۔آپ کی وفات سے ملت اسلامیہ ہندیہ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علمی حلقہ سوگوار نظرآرہا ہے۔چنانچہ اس مشکل وقت میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم حضرت مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے اخبا رکے نام جاری ایک بیان میں شمالی ہند کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ خیر العلوم ڈمریا گنج یوپی کے موسس و مثالی ناظم ، مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کی مجلس شوریٰ کے رکن، جامعہ سلفیہ بنارس (مرکزی دار العلوم) کے ممبر مجلس منتظمہ، حاذق و ماہر طبیب، معروف دینی ، تعلیمی، رفاہی اور سماجی شخصیت ڈاکٹر عبدالباری صاحب کے انتقال پر گہرے رنج و افسوس کا اظہارکیا ہے اور ان کی موت کو ملک وملت اور جماعت کا عظیم خسارہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بڑے خلیق و متواضع، مہمان نواز، علماءکے قدردان ، غیرت قومی و ملی سے سرشار، عزم جوان، یقین محکم و عمل پیہم کے پیکر اور جماعت و جمعیت کے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔ دینی، تعلیمی، سماجی اور رفاہی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ آپ کا آبائی وطن کنڈﺅ بونڈیہار اتر پردیش ہے جہاں1935ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں حاصل کی۔1947ء میں کچھ ماہ کے لیے غیر منقسم ہندوستان کی عظیم دانش گاہ جامعہ رحمانیہ دہلی میں طلب علم میں بسر ہوئے ، لیکن جد و جہد آزادی کی شورش کی وجہ سے وطن مالوف لوٹ آئے اور مدرسہ رحمانیہ بنارس سے عالمیت کی سند حاصل کی۔1960ءمیں طبیہ کالج لکھنوسے تکمیل الطب کیا۔ پھر ڈمریاگنج میں مطب قائم کر کے خدمتِ خلق سے وابستہ ہوگئے۔ آپ بغدادِ علم ڈومریا گنج کے بنیاد گزاروں میں سے تھے۔ جہاں آپ نے سب سے پہلے روڈویز بس اسٹاپ کے قریب ایک مسجد اور مدرسہ کی تاسیس کی اور 1979ء میں جامعہ خیر العلوم کی شکل میں ایک مستقل و عظیم دینی درسگاہ کی بنیاد ڈالی اور اس طرح رفتہ رفتہ کلیة الطیبات، یتیم خانہ، خیر ٹیکنیکل کالج اور درجنوں رفاہی و تعلیمی ادارے وجود میں آتے گئے۔ اور آج ملک اور علاقے کے ہزاروں طلبہ و طالبات آپ کے قائم کردہ اداروں سے دینی، عصری علوم حاصل کر کے قوم وملت کی فیض رسانی کا ذریعہ بن رہے ہیں جو کہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ ان شاءاللہ۔ آپ کی شخصیت بلاشبہ مرجع خلائق تھی۔ آپ بیک وقت جسمانی و روحانی طبیب تھے۔ آپ کی ذات سے صرف متحدہ ضلع بستی و گونڈہ ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان کسی نہ کسی حیثیت سے مستفید ہورہا تھا۔ ایسی روشن ، باکمال، باہمت مخلص و ہمدرد جماعت و جمعیت ، محسن و محنتی شخصیت اور قدردان علم و علماءکا ملنا مشکل ہے۔ ابھی ۵جولائی 2020ء کی بات ہے کہ جب ہم آپ کے در دولت پر آپ کی عیادت کررہے تھے اور آپ اطمینان سے بیٹھے ہماری تواضع و تکریم فرمارہے تھے۔ آہ ایسا مہمان نواز اور اکرام ضیف کرنے والا بندہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص کہاں ملے گا۔ آپ کے دیگر نیک اوصاف اور اعلی اخلاق نیزجمعیت وجماعت سے تعلق کی مثال آپ کا وقتا فوقتا ہم سے پرشش حال کرتے رہنا بھی ہے۔ اور دہلی کے ہر سفر میں باوجود بہت سی جائے قیام ہونے کے اہل حدیث کمپلیکس میں حاضرہوتے یا کم از کم ملاقات کے لیے فون کرتے تھے اور ان کے جائے قیام پر حاضر ہونے پر بے پناہ محبت کا اظہار فرماتے تھے۔ بعض اوقات آپ اپنی بچی اور داماد ڈاکٹر کلیم صاحب کی دولت کدہ پر قیام فرماتے اور وہاں جانے پر پر تباک استقبال بھی کرتے۔ مرکزی جمعیت نے ہر خوشی اور اہم اور مشکل اوقات میں ان کو یاد کیا اور انہوں نے بھی مایوس نہیں کیا بلکہ بعض مشکل حالات میں بڑی ہمت بندھائی اور اپنے اہم مشوروں اور باحوصلہ کلمات کے ذریعہ ہمت افزائی بھی کی اور آڑے وقتوں میں مدد کیاکرتے تھے۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کو بھی بعض ایسے مواقع میسر ہوئے جس میں توصیہ و سفارش سے آگے بڑھ کر کچھ مشاریع وغیرہ کے حصول کا موقع ملا تو منجملہ بعض اہم اداروں کے جامعہ خیر العلوم کو بھی مرکزی جمعیت نے سر فہرست رکھا گرچہ بعض کاغذات کے بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے منصوبہ پائے تکمیل کو نہیں پہنچ سکا تا ہم ڈاکٹر صاحب مرکزی جمعیت کے اس حوصلہ افزائی کی ہمیشہ تعریف کرتے تھے۔ خدا بخشش کرے عجب آزاد مرد تھا۔
پریس ریلیز کے مطابق ڈاکٹر صاحب کافی عرصہ سے بیمار تھے۔ لیکن اس کے باوجود بنفس نفیس اپنے قائم کردہ درجنوں تعلیمی و رفاہی اداروں کی نگرانی فرماتے تھے جس سے اساتذہ و معلمات اور دیگر کارکنان کو بڑا حوصلہ ملتا تھا۔ ادھر چند دنوں سے لکھنو کے ایک اسپتال میں ایڈمٹ تھے۔ جہاں گزشتہ شب کے 12بجے بعمر 85 سال داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور اس طرح فضل وکمال اور خیر و عطا کا نیر تاباں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ البتہ ان کے قائم کردہ دینی و تعلیمی اداروں کی شکل میں روشن و تابندہ چراغوں سے روشنی حاصل کرنے کا سلسلہ جاری وساری رہے گا۔ ان شاءاللہ۔ ان کی تدفین آج بعد نماز جمعہ آبائی وطن کنڈو بونڈیہار ، ضلع بلرام پور میں عمل میں آئی۔ پسماندگان میں اہلیہ، پانج لائق و فائق صاحبزدگان انجینئر ارشاد احمد، ڈاکٹر فیضان احمد، افضال احمد، جاوید احمد اور مولانا ریاض احمد ندوی صاحبان اور دو بیٹیاں اور متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ آپ کے صاحبزدگان آپ کے تعلیمی و رفاہی مشن کو آگے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ ان کو مزید ہمت و حوصلہ عطا فرمائے۔ اور مرحوم کی مغفرت فرمائے، خدمات کو قبول کرے، جنت الفردوس کا مکین بنائے، پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے ، جامعہ خیر العلوم و دیگر تعلیمی ورفاہی اور ٹیکنیکل اداروں اور جماعت و جمعیت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان اداروں کو پوری توانائی کے ساتھ تا دیر جاری وساری رکھے۔
پریس ریلیز کے مطابق مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے دیگر ذمہ داران واراکین اور کارکنان نے بھی ڈاکٹر صاحب کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعاگو ہیں۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر مختلف علمائے کرام، طلبائے علم اور عوام نےآپ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور مختلف تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داروں نے بھی آپ کی وفات کو ملک و ملت کے لئے عظیم خسارہ قرار دیا ہے۔
1,963 total views