این ڈی اسپیشل
ملک کی راجدھانی دہلی اور ہندوستان بھرمیں چند ماہ قبل متنازعہ قانون سی اے اے کے خلاف سخت احتجاجات ہوئے تھے۔ اس تعلق سے شاہین باغ نے اپنی الگ منفرد پہچان بنالی تھی اور اس طرز پر دہلی، بیرون دہلی بلکہ بیرون ملک میں بھی مختلف جگہوں پر سی اے اے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی تھی۔ اس دوران کچھ سازشی ذہن لوگوں نے مسلمانوں کے اس پرامن احتجاج اور مظاہرہ کو بدنام کرنے کے لئے تشدد کو ہوا دے دی جس کی وجہ سے جعفرآباد ، سیلم پور جیسے علاقوں میں فسادات رونما ہوئے اور اس میں درجنوں جانیں تلف ہوئیں اور کروڑوں کی مالیت کے اثاثے برباد ہوئے۔
ان احتجاجات سے پہلے دہلی کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فسطائی طاقتوں نے دیدہ و دانستہ طور پر اس فسادات کو شہہ دیا اور ان مظاہروں کو بدنام کرنے کی خاطر ہندومسلم فسادات کرائے۔چنانچہ دہلی الیکشن کے موقع پر ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح سے شاہین باغ کے مظاہرین کے خلاف غیرشائستہ تبصرے کئے، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے انتخابی جلسے میں لوگوں کو پرتشدد نعرے لگانے پر اکسایا اور اس پر خاموش رضامندی ظاہر کی۔اسی طرح بی جے پی کے ایک دوسرے لیڈر کپل مشرا نے پولیس والوں کی موجودگی میں ایک خاص کمیونٹی کے خلاف زہرافشانی کی اور ملک کے اکثریتی طبقہ کو اقلیتی طبقہ کے خلاف تشدد پر اکسایا، یہ سبھی چیزیں پبلک ڈومین میں تھی اور ہائی کورٹ تک نے دہلی پولیس کو تنبیہ کی تھی کہ ان زہریلے بیان بازیوں پر ایکشن لیں لیکن افسوس کہ دہلی پولیس نے جب ان فسادات کے تعلق سے اپنی ابتدائی جانچ رپورٹ کورٹ میں داخل کی تھی تو دور دور تک کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر جیسے لوگوں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ بالکل بے بنیاد اور من گھڑت باتیں اس جانچ رپورٹ کے اندر کہی گئیں اور کورٹ کاسابقہ تبصرہ سچ ثابت ہوا کہ جانچ صرف ایک کمیونٹی کی طرف جھکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
دہلی پولیس کا یہ افسوسناک رویہ ہمارے لئے اس لئے پریشان کن نہیں ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت کا برتاو مائناریٹی کمیونٹی کے ساتھ انتہائی متعصبانہ رہا ہے ۔ لاک ڈاون جب نافذ ہوا اور کرونا وائرس وبا کی سنگینی کی وجہ سے جب تمام افراد اپنے اپنے گھروں میں رہنے پر مجبور ہوئے تو دوسری طرف مرکزی حکومت نے دہلی پولیس کے ذریعہ سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف کریک ڈاون کرنا شروع کیا اور متعدد نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ٹھونس دیا اور حد تو تب ہوئی جب صفورا زرگر جیسی باہمت لڑکی اور اس کے حاملہ ہونے پر سوشل میڈیا اور بی جے پی آئی ٹی سیل کے ٹرولرس نے نازیبا تبصرے کئے اور اسے بدکردار ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ یہ بات معروف ہے کہ وہ شادی شدہ اورکوالیفائڈ خاتون ہے۔
دہلی پولیس نے ایک ایسے ڈاکٹر کو جس نے دہلی فسادات کے موقعہ پر زخمیوں کی دیکھ بھال کی، مریضوں کو دوائیں فراہم کی اور مظلوموں کی داد رسی کی، اسے جانچ رپورٹ میں متہم کیا گیا اور فسادات میں ملوث بتایا گیا ۔سب سے زیادہ تعجب اس امر پر ہوا کہ ان فسادات کا تعلق سعودی عرب سے جوڑنے کی کوشش ہوئی اور یہ من گھڑت کہانی پلانٹ کی گئی کہ ان فسادات کی فنڈنگ سعودی عرب اور ملک کے مختلف گوشوں سے ہوئی۔
بات بالکل واضح ہے کہ اکثریتی طبقہ کو خوش کرنے اور اقلیتی کمیونٹی کو ڈر اور خوف میں مبتلا کرنے کے لئے پولیس اور حکومت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور وہ ایسی کوئی بھی بات بناسکتی ہےاور کہانی گڑھ سکتی ہے۔ایسے میں مسلم تنظیموں، مسلم جماعتوں کے سربراہان اور مسلم قائدین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ایسے نازک حالات میں جبکہ کھلے عام امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، ان زیادتیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور فسادات کے بعد متاثرین کے مابین ریلیف بانٹنے کے کام سے آگے بڑھیں اور قانونی اعتبار سے مسلمانوں کی مدد کے لئے سامنے آئیں۔ بروقت اس کے علاوہ مسلم قائدین کے پاس کوئی چارہء کار نہیں ہے اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو یقین جانئے ہماری آنے والی نسلیں ہمیشہ کے لئے وطن عزیز کے اندر دوسرے درجے کی شہری ہوجائیں گی، ووٹ کے حق سے محروم کردی جائیں گی، عبادت گاہوں پر پابندی عائد کردی جائے گی، عبادتوں پر روک لگادی جائے گی تو پھرہماری نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ حالات بہت نازک ہیں، اسے دلیری اور بہت ہی عزم و حوصلہ نیز ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔
616 total views