شاہ رخ خان: یوں ہی نہیں کوئی بالی ووڈ کا بادشاہ بن جاتا ہے

آج شاہ رخ خان کا برتھ ڈے ہے۔ انہیں ہندی سنیما کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ بادشاہ کا خطاب کسی کو یوں ہی نہیں مل جاتا ہے بلکہ اس کے درپردہ پوری کہانی ہوتی ہے۔ اس کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ہر بادشاہ کی طرح شاہ رخ خان کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑی ہے۔ جہدمسلسل اور جنون کا دوسرا نام ہے شاہ رخ خان۔ دہلی کی گلیوں سے نکل کر ایک نوجوان فلمی دنیا کا چمکتاہوا ستارہ بن جاتا ہے۔ شاہ رخ خان کی زندگی کا نشیب و فراز کسی فلمی کہانی سے کم نہیں ہے۔
شاہ رخ خان کے والد میر محمد تاج خان ایک مجاہد آزادی تھے۔ وہ وطن عزیز کے سب سے نوعمر مجاہد آزادی تھے۔ خان عبدالغفار خان کے ہمراہ میر محمد نے انگریزوں سے لڑائی لڑی۔ بٹوارے کے بعد ان کے والد پاکستان سے بھارت آگئے اور دہلی کے راجندر نگر میں کرایے کے ایک مکان میں رہنے لگے۔ محدود وسائل ہی میں سہی لیکن ان کی پرورش انتہائی اچھے ماحول میں ہوئی۔ شاہ روخ کی کامیابی میں اس پرورش کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ شاہ رخ کی پیدائش 2 نومبر 1965 کو نئی دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد نے اپنے خانوادے کو چلانے کے لئے متعدد قسم کے کاروبار کئے لیکن کسی میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ۔ شاہ رخ خان کو اپنے والد اور والدہ دونوں سے بے انتہاء الفت و لگاؤ تھا۔آج بھی شاہ روخ دہلی کے ارون جیٹلی اسٹیڈیم (جس کا پرانا نام فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم تھا) کے پاس واقع قبرستان میں آتے ہیں جہاں ان کے والدین کی قبریں موجود ہیں۔
شاہ رخ کے والد نے نیشنل اسکول آف ڈراما کے بازو میں ایک چھوٹا سا ہوٹل کھولا تھا۔ شاہ رخ اکثروہاں آیا جایا کرتے تھے۔ این ایس ڈی میں پڑھنے والے طلباء و طالبات یہاں آیا کرتے تھے۔ اس وقت وہاں کے ڈائریکٹر ابراہیم القاضی ہوا کرتے تھےجنہوں نے ہندوستانی تھیئٹر کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور ہندی سنیما کو بہترین ایکٹرس دیئے۔ یہ ستر کی دہائی کی بات ہے۔
اس زمانے میں راج ببر، نصیرالدین شاہ، انوپم کھیر جیسی کئی بڑی ہستیاں یہاں زیر تعلیم تھیں۔ ان سبھی سے شاہ رخ خان کی ملاقات ہوتی رہتی تھی لیکن اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہی بچہ مستقبل میں بالی ووڈ کا بادشاہ کہلائے گا۔
شاہ رخ خان کی قابلیت کو سب سے پہلے سعید اختر مرزا نے پہچانا۔ سعیدمرزا ہندی سنیما کے سنجیدہ اور قابل ڈائریکٹروں میں گنے جاتے ہیں۔ وہ حساس قلم کار بھی تھے۔
وہ ’’موہن جوشی حاضر ہو‘‘ ’’سلیم لنگڑے پر مت رو‘‘ جیسی بہترین فلمیں بناچکے ہیں۔ ساتھ ہی ’نکڑ‘ اور ’سرکس‘ سیریئل بناچکے ہیں۔ سعید مرزا نے سرکس سیریئل سے شاہ رخ خان کو سب سے پہلے بریک دیا۔ یہ بات نوے کی دہائی کی ہے۔ دہلی میں جامعہ کے ماس کمیونیکیشن انسٹی ٹیوٹ سے وہ صحافت کی پڑھائی کررہے تھے، اس وقت وہ فوجی سیریئل کی شوٹنگ بھی ساتھ ساتھ کررہے تھے۔ شوٹنگ کے دوران ان کی مقبولیت ہونے لگی تھی۔
اس کے بعد شاہ رخ خان دہلی سے ممبئی آگئے اور فلموں میں کام کرنے کے تعلق سے ان کی جدو جہد شروع ہوگئی۔ شاہ رخ خاں نے انسان کے عہدے اور منصب کی کبھی اہمیت نہیں دی۔ انہوں نے قابل لوگوں کا ہمیشہ احترام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بغیر گاڈ فادر کے شاہ رخ نے فلمی دنیا میں اپنا بلند مقام بنایا۔ ان کی خود اعتمادی ہی ان کی طاقت ہے جو بھیڑ سے انہیں ممتاز بناتی ہے۔ شاہ رخ نے ابھی تک اپنے فلمی کیریئر میں 14 بار فلم فیئر ایوارڈ جیتے۔
دیوانہ ان کی پہلی فلم تھی۔ پہلی ہی فلم کے لئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ یہ فلم 1992 میں آئی تھی۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر ملک میں اس وقت ایک عجیب قسم کی اتھل پتھل مچی ہوئی تھی، ایسے میں یہ جوان سلور اسکرین پر رومانس کی نئی پہچان لکھ رہا تھا اور نوجوانوں کو محبت کا پیغام دے رہا تھا۔ اس کے بعد شاہ رخ خان بازی گر بن کر آئے۔ ڈر اور انجام میں ان کی ایکٹنگ کو خوب خوب سراہا گیا اور اس طرح سے ہندی فلموں کو ایک سپراسٹار ملا۔
1995میں دل والے دلہنیاں لے جائیں گے اور 1998 میں کچھ کچھ ہوتا ہے نے تو ہندی سنیما کا روپ رنگ ہی بدل دیا۔ اس وقت ہندوستان بدل رہا تھا اور اس بدلاؤ کو شاہ رخ خان دونوں ہاتھوں سے بھنا رہے۔ شاہ رخ خان نے سپراسٹار کا مفہوم بدل دیا۔ اقتصادیات میں ڈگری لینے والے شاہ رخ نے بازار اور سنیما کی ایک نئی کیمسٹری تیار کی۔ یہ وہ دور تھا جب سڑکوں سے لے کر اسکول کی کلاس تک شاہ رخ ہی شاہ رخ چھائے ہوئے تھے۔ فلموں کے ساتھ وہ اشتہارات کی دنیا کے بھی سپر اسٹار بن گئے۔ اخلاقی خوبیاں اور وراثت میں حاصل ہونے والے عادات و اطوار ہی انہیں بادشاہ بناتے ہیں۔ پردہ سیمیں کا یہ ایکٹر اصل زندگی میں بھی ایکٹر ہے جو کبھی ہارتا نہیں بلکہ ہر غم کے بعد مسکراکر کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ
ہار کر جیتنے والے ہی کو بازی گر کہتے ہیں-

 782 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے