آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے رام جنم بھومی پوجن کے موقع سے کئے گئے اپنے ٹویٹ کو کیا ڈیلیٹ سوشل سائٹس پر ذمہ داران بورڈ نشانے پر

ایودھیا میں 5/اگست 2020ء بروز بدھ جو بھومی پوجن ہوا، اس موقع کوجس طرح اکثریتی طبقہ نے گرانڈ ایونٹ میں تبدیل کیا، اس سے ہزاروں انصاف پسند لوگوں کو تکلیف ہوئی۔ ابھی ہندوستانی مسلمانوں کا بابری مسجد کے تعلق سے سپریم کورٹ کے ”نام نہاد“ فیصلہ سے لگا زخم مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اب یہ دھرتی پوجا اور اس موقع پر سوشل سائٹس وغیرہ پر اشتعال انگیز پوسٹس اور کمنٹس نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔
یوں تو بابری مسجد کے تعلق سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلمانوں کی نمائندگی کی ہے اور مسلمانوں کا مقدمہ لڑا ہے لیکن جانکار ہمیشہ سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران پر انگشت نمائی کرتے رہے ہیں۔ بورڈ کے جنرل سیکریٹری سے لے کر اس کے وکیل صاحب تک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اندرون خانہ مخالف فریق سے سانٹھ گانٹھ کئے ہوئے ہیں اور ظاہری طور پر عدالتوں میں مسلمانوں کی نمائندی کا دم بھرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا ہیرو اور بہی خواہ باور کراسکیں۔
دھرتی پوجن کے موقع پر جبکہ ہندوستان کے وزیراعظم، اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور اترپردیش کے راجیہ پال وغیرہ نے سرکاری سہولیات کا فائدہ اٹھایا اور اس دن سرکاری نیوز چینل پر اس کا براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ مسلمانوں کو امید تھی کہ اس تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کوئی بیان آئے گا لیکن مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس موقع پر ایسی گندی سیاست کا مظاہرہ کیا جس سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وابستگان کو سخت فکرمندی ہوئی  کہ آخربورڈ کے ذمہ داران نے ایسا کیوں کیا؟ پہلے ایک صفحہ کا اردو میں آفس سیکریٹری کی طرف سے بیان شائع ہوا جس کا مضمون تھا:”بابری مسجد،مسجد تھی اور ہمیشہ مسجد ہی رہے گی۔غاصبانہ قبضے سے حقیقت ختم نہیں ہوتی۔سپریم کورٹ نے فیصلہ ضرور دیا ہے،مگر انصاف کو شرمسار کیا“۔ اس بیان پر انگلش زبان میں دوسطری نوٹ ڈالا گیا تھا اور اس بار ے ہگیاصوفیہ کی مثال دی گئی تھی اور مسلم پرسنل کے آفیشیل ٹویٹر ہینڈل سے اسے ٹویٹ کیا گیا۔


بظاہر یہ بیان کافی تلخ تھا اور ایک طرح سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، لیکن ہائے افسوس کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مصلحت کوش ذمہ داران نے ٹویٹر پرموجود  اپنے اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا اور اس کے بعد اسی مضمون کو تفصیل کے ساتھ دو صفحہ کا بیان ڈاکٹرمحمد وقارالدین لطیفی، آفس سیکریٹری کے دستخط سے شائع کیا گیا۔


اس کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ ٹویٹر اور فیس بک جیسے رابطہ عامہ کی سائٹس کے صارفین کے نشانے پر آگیا۔کچھ لوگوں نے مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے یہاں تک کہہ دیا گیا کہ سابقہ بیان مسلم پرسنل لاء نے اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر دیا تھااور ان کا مقصد مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنا تھا۔ ایسے ہی ایک ٹویٹر یوزر فیصل شیخ نے ٹویٹر پر لکھا

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بابری مسجد کے متعلق اپنا کل کا تازہ ٹویٹ کیوں ڈلیٹ کردیا؟ کیا پرسنل لاء والوں نے اپنا موقف تبدیل کردیا ہے؟ کیا ٹویٹ صرف مسلمانوں کو بہلانے کے لئے کیا گیا تھا؟ کیوں ڈیلیٹ کیا گیا، کیا وجہ ہے آخر؟ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کیوں کھلواڑ کیا جارہا ہے؟

فیس بک پر ایک صارف نوشاد زبیر ملک نے اس پورے قضیہ پر ظفریاب جیلانی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے لکھا:

ظفریاب جیلانی کو مسلم پرسنل لاء کے تمام عہدوں سے برطرف کردیا جائے۔

 

بہرحال مسلم پرسنل لاء بورڈ کو واضح کرنا چاہئے کہ اس نے کس کے دباؤ میں اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کیا ہے اور ایسا تو نہیں کہ وہ مسلمانوں کی ہمدردی بٹورنے کے لئے بس ایک ناٹک کیا تھا؟ اگر مسلم پرسنل لاء کے ذمہ داروں نے اس بیان کے اندر کچھ ترمیم کرنی ہی مناسب سمجھی اور اس کو نئی صورت میں پیش کیا تو پھر ٹویٹر پر ہندی یا انگلش کیپشن کے ساتھ کیوں نہیں ٹویٹ کیا گیا ہے؟ یہ سب سوالات مسلمان پوچھ رہے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ جو پہلے ہی اپنی سست روی اور غیرسنجیدگی کے باعث یہ مقدمہ ہار گیا ہے، اب اس طرح کی حرکت مسلم کمیونٹی کے اندر مزید بے چینی پیدا کرے گی۔ مسلم پرسنل لاء کے جنرل سیکریٹری حضرت مولانا ولی رحمانی اور دیگر ذمہ داران ضرور اس بارے میں بیان صادر کرکے مسلمانوں کی بے چینیوں کا مداوا کریں۔

 1,941 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے