مشہور و معروف شاعرڈاکٹر راحت اندوری کا آج ۱۱/ اگست 2020ء بروز منگل ستر سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ آج ہی انہوں نے ٹویٹر پر ٹویٹ کرکے جانکاری دی تھی کہ وہ کورونا پازیٹیو ہیں۔انہیں علاج کے لئے اتوار کے دن اسپتال میں ایڈمٹ کرایا گیا تھا۔شری اربیندو اسپتال کے ڈاکٹر ونود بھنڈاری نے بتایا کہ اردو کے معروف شاعر راحت اندوری کا دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ان کو دو مرتبہ دل کا دورہ پڑا تھا اور انہیں بچایا نہیں جاسکا۔ڈاکٹر بھنڈاری نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ساٹھ فیصد نمونیا تھا۔اربندو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیزمیں سینہ سے متعلق بیماریوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر ڈوسی نے بیاتا کہ اندوری صاحب کے دونوں پھیپھڑوں میں نمونیہ تھا اور انہیں گمبھیر حالت میں اسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا۔سانس لینے میں ہورہی تکلیف کی وجہ سے انہیں آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تھا اور آکسیجن دی جارہی تھی لیکن تمام کوششوں کے باوجود ان کی جان نہیں بچائی جاسکی۔
ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنی بیماری کی اطلاع دینے کے بعد اپنے مداحوں سے خصوصی اپیل کی تھی کہ ایک اور التجا ہے، مجھے یا گھر کے لوگوں کو فون نہ کریں، میری خیریت ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعہ آپ کو موصول ہوتی رہے گی۔اس خبر کے پھیلتے ہی ان کے مداح ان کی شفایابی کی دعا کرنے لگے تھے۔لیکن جس ٹویٹر اکاونٹ سے ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنی بیماری کی خبر دی تھی اسی سے آپ کی وفات کی خبر بھی دی گئی اور اب اندور کے کلکٹر نے بھی ان کے وفات کی تصدیق کردی ہے۔
راحت اندوری کی پیدائش 1950ء میں ہوئی تھی۔اندور میں واقع نیوتن اسکول میں ہی انہوں نے ہائر سیکنڈری تک تعلیم حاصل کی۔ اندور کے اسلامیہ کریمیہ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے برکت اللہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔
گذشتہ چالیس پچاس سالوں سے راحت اندوری صاحب مشاعروں اور کوی سمیلن میں شرکت کیا کرتے تھے اور اپنے اشعار پڑھا کرتے تھے۔یقینا راحت اندوی ہمارے دور کے مقبول شاعروں میں تھے۔بہ حیثیت استاد اپنے سفر کا آغاز کرنے والے راحت اندوری نے بہت کم عرصے میں مقبول شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔
آپ مشاعروں کے کامیاب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ہندی فلموں کے کامیاب نغمہ نگار بھی رہے ہیں۔آپ نے نوے کی دہائی میں متعدد فلموں کے سپرہٹ نغمے لکھے۔آپ کی شاعری میں عشق کے نغمے بھی ہیں، آوارگی اور مے کشی کی باتیں بھی ملتی ہیں۔ملک کی سیاست اور سماج میں بنتی ہوئی نفرت کی دیواروں پر بھی تیشہ زنی کرتے ہیں اور زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل سے مقابلہ کرنے اور ڈٹے رہنے کی بھی نصیحت کرتے ہیں۔ملک کی سیاست پر نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں
سرحدوں پر تناو ہے کیا پتہ کرو چناو ہے کیا
شہروں میں تو بارودوں کا موسم ہے گاوں چلو امرودوں کا موسم ہے
راحت اندوری کی شاعری بہت متنوع ہے، وہ کبھی ملک اور ملک کی موجودہ صورت حال پر ضرب لگاتے ہیں تو کبھی نفرتوں کی سیاست پر نشتر لگاتے ہیں تو کبھی دشمنوں کو برابھلا کہنے سے روکتے بھی ہیں
یہ اور بات کہ دشمن ہوا ہے آج مگر وہ میرا دوست تھا کل تک، اسے برا نہ ہو
کبھی وہ کم ظرفوں کے تئیں جارحانہ رخ کرتے ہوئے اپنی محفل محبت سے نکال باہر کرنے پر اصرار کرتے ہیں
انتظامات نئے سے سنبھالے جائیں جتنے کم ظرف ہیں محفل سے نکالے جائیں
الغرض راحت اندوری محبت بانٹنے والے اور سماج میں نفرتوں کی سوداگری کرنے والوں کی خیریت لینے والے ایک بے باک شاعر تھے جو سماج میں محبت کے ساتھ مل جل کر رہنے کے قائل تھے۔راحت اندوری اپنی شاعری سے محبت اور محبت کی خوشبو بکھیرنے کا کام کرتے تھے۔راحت اندوری نے خود کہا تھا
جنازے پر میرے لکھ دینا یارو محبت کرنے والا جارہا ہے
مشاعروں میں جو چیز راحت اندوری کو دوسرے شاعروں سے ممتاز بناتی تھی، وہ تھا ان کا اپنا کلام پیش کرنے کا بے باکانہ انداز اور نشیب و فراز اور زیرو بم کا برمحل استعمال۔ آپ سامعین کے نبض کو بخوبی جانتے تھے۔ آپ کے اس انداز پر پورا مشاعرہ جھوم اٹھتاتھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ کھڑے ہوکر آپ کو داد دیا کرتے تھے۔اپنے خاص انداز میں کلام پیش کرنے کا نرالا انداز کے ساتھ ساتھ ان میں مثال کی کلاکاری پائی جاتی تھی اور یہ آپ کو دوسروں سے ممتاز بناتی تھی۔
اس طرح سے ان کی موت کو یاد کررہے ہیں لوگ
ملک کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مقبول شاعر راحت اندوری جی کے گزرجانے کی خبر سے مجھے کافی دکھ ہوا ہے۔ اردو ادب کے وہ قد آور شخصیت تھے۔ اپنی یادگار شاعری پر انہوں نے انمٹ نقوش لوگوں کے دلوں پر چھوڑے ہیں۔آج ادب کی دنیا کا بڑا نقصان ہوا ہے۔
کانگریس کے سابق صدر اور ممبرپارلیامنٹ راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں کہاکہ اب نہ میں ہوں نہ باقی ہے زمانے میرے، پھربھی مشہور ہیں شہروں میں فسانے میرے۔ الوداع راحت اندوری صاحب۔
ان کی وفات کے موقع پر مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے انہیں لاکھوں کروڑوں دلوں پر حکومت کرنے والا شاعر بتاتے ہوئے ان کی وفات کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ نے ٹویٹ کیا ہے کہ صبح ان کے بیمارہونے کی خبر ملی اور اب اچانک وہ ہمیں چھوڑ گئے،اس خبر پر یقین نہیں ہورہا ہے۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مشہور شاعر راحت اندوری صاحب کے انتقال کی خبر جان کر بے حد تکلیف ہوئی۔ آج ملک نے ایک عظیم شخصیت کو کھودیا ہے۔
دلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ الوداع راحت اندوری صاحب! دیش کی ایک بے باک آواز چلی گئی۔ اس کے بعد ان کے ایک شعر کے ذریعہ خراج عقیدت پیش کیا کہ سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں، کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔
بہار کے حزب اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جانے مجھ کو کیا سوجھی ہے شبدوں کی انگنائی میں، میر کی غزلیں ڈھونڈھ رہا ہوں تلسی کی چارپائی میں…… الوداع راحت اندوری جی۔اس دور میں آپ کی بہت کمی محسوس ہوگی۔
1,624 total views