شاہ فیصل رحمہ اللہ پر  مشورہ نہ قبول کرنے کا پروپیگنڈہ معصوم ذہنوں میں بغاوت اور نفرت کی  لہر پیدا کرنے کی سازش

ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی

ڈائرکٹر رحیق گلوبل اسکول نئی دہلی و فوری مترجم امام حرم مکہ مکرمہ

غزہ پر   اسرائیلی بمباری وجارحیت کے دوران  طرح طرح کی پوسٹیں سامنے آتی رہیں , ان میں بعض پوسٹیں تو  بظاہر  غزہ   کی حمایت   میں لکھی گئی ہوتی تھیں لیکن دراصل وہ پوری طاقت کے ساتھ مملکت توحید کی کردار کشی  اور فلسطین کے تئیں اس کی قربانیوں پر پردہ  ڈالنے پر مبنی ہوتی تھیں, حد تو تب ہوگئی جب ایک پوسٹ ایسی ڈالی  گئی جس میں شاہ فیصل رحمہ اللہ کے تعلق سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے اگر مولانا مودودی رحمہ اللہ کے مشورہ کو مان لیا ہے ہوتا تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ ان کے مشورہ کو نہ ماننے کی وجہ سے نہ صرف شاہ فیصل بلکہ دوسرے  تمام سعودی حکمرانوں کوناعاقبت اندیش   اور عیش پرست کے خطاب سے نواز ا گیا تھا , اس میں بعض جملے تو ایسے تھے جنہیں پڑھ کر ہر اس شخص  کا وجود ہل جائے گا جو شاہ فیصل رحمہ اللہ کے مجاہدانہ کارناموں سے واقف ہوگا, اس لیے  اس بات کی سخت ضرورت محسوس ہوئی کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ کے عبقری اور مجاہدانہ کارناموں پر مختصرا روشنی ڈال دی جائے تاکہ سازشی اور پروپیگنڈہ پھیلانے والے یا معصوم  ذہنوں میں بغاوت کی لہر پیدا کرکے آپس  میں مسلمانوں کو برسر پیکار کرنے والوں کی ساز ش ناکام ہوسکے۔
ان سازشیوں کو پتہ  ہونا چاہیے کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ    محل میں عیش کرنے والے شاہ نہیں تھے بلکہ ایسے مجاہد تھے جو بچپن سے ہی میدان جنگ میں حق کی سربلندی اور مملکت سعودی عرب کی آزادی وخود مختاری کے لیے اپنے والد شاہ عبدالعزیز کے ساتھ کندھوں سے کندھا ملا کرکھڑے رہے۔  سن 1336 میں ہونے والے غزوۂ "یاطب” میں بھی آپ اپنے والد كے ساتھ تھے،  جبكہ ان  كی عمر صرف 13 سال كی تھی،اس جنگ كو ابن رشید كے خلاف پہلی جنگ تصور  كیا جاتاہے،  اس جنگ میں امیر فیصل كی جنگی خوبیوں نے والد محترم كو اس قدر متاثر كیا  كہ اس كے بعد ہی وہ   انہیں فوجی وعسكری ذمہ داریاں سونپنے لگے۔
ان سازشیوں کو پتہ  ہونا چاہیے کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ  آپ كی جنگی صلاحتیوں كو دیكھتے ہو ئے آپ كے والد نے آپ كو 1339ھ میں عسیر میں رونما ہونے والےفتنہ كا قلع قمع كرنے كے لیے فوجی دستے كا قائد بناكر بھیجا، سعودی حكومت كے خلاف رونماہونے والے اس فتنہ وبغاوت كے سربراہ حسن بن عائض تھے، انہیں شریف حسین كا تعاون حاصل تھا، شاہ عبدالعزیز نے شاہ فیصل كو نجد سے 6 ہزار فوجیوں  سے لیث كركے بھیجا، جب آپ قحطان  اور شہران پہنچے تو مزید 4 ہزار افواج  آپ كے ساتھ شامل ہوگئیں، اس عظیم فوجی لشكر كے ساتھ امیر فیصل ذی القعدہ 1340 میں ابہا كی طرف روانہ ہوئے ، آپ نے نہایت جوانمردی وپامردی  كےساتھ  ایسا حملہ كیا كہ ابن عائض كی فوج كو شكست فاش دے ڈالی،  اور اس طرح آپ عسیر كی راجدھانی ابہا میں فاتح وقائد اور عظیم سپہ سالار كی حیثیت  سے داخل ہوئے۔
ان سازشیوں کو پتہ  ہونا چاہیے کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ  1344 میں جب جدہ شہر پر شاہ عبدالعزیز كا حصار طویل ہوگیا اور كامیابی نہیں مل پارہی تھی ،توانہوں نے اپنے بیٹے فیصل  كو فوج كے ساتھ بلایا،  امیرفیصل   كے آتے ہی صرف 25 دن كے اندر شاہ عبدالعزیز كی فوج كو فتح نصیب ہوئی، اور شاہ علی بن الحسین  نے  محسوس كرلیا  كہ وہ مزاحمت كے قابل نہیں رہے ، چنانچہ اس نے خو د سپردگی كرڈالی۔
ان سازشیوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ  نے حجاز كا نائب بننے كے بعد سب سے پہلے تعلیم كے شعبہ پر توجہ دی اور تعلیمی ڈائركٹوریٹ كا قیام كیا، اس كے بعدصحت كے شعبہ كا انتظام بحال كیا اور بیرون ممالك سے ڈاكٹروں كو بلایا، پھر پانی كے اہم مسئلہ كو حل كیا اور اس كےلیے جدید ٹكنالوجی اور جدید مشینوں كا استعمال كیا،  اس طرح مكہ سعودی عرب  كا وہ پہلا شہر بن گیا جہاں نلكوں سے پانی سپلائی كیا جانے لگا اور اسی مناسبت سے دنیا کے بہت سارے بہترین دماغوں کو آپ نے  اپنے یہاں بلایا۔
ان سازشیوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ  آپ كی دوررس صلاحیتوں كو دیكھتے ہوئے والد محترم كی جانب سے آپ كو برطانیہ سے "جدہ معاہدہ ” كرنے كی ذمہ داری دی گئی۔ اس معاہدہ كے مطابق جدہ اور اس كے ملحقات  كو ایك مختار ریاست كی حیثیت سے منواناتھا ، آپ نے كامیابی كے ساتھ یہ معاہدہ كیا اور اس میں پہلا بند یہ تھا كہ "برطانیہ كے شاہ ،شاہ عبدالعزیز كے  حق میں حجاز ، نجد اور اس كے ملحقات  كی مكمل خود مختاری، سیادت اور آزادی كا اعتراف كرتے ہیں”۔
شاہ عبدالعزیز نے مدیریۃ خارجیہ(بیرونی ڈائركٹوریٹ) كو جب وزارت خارجہ میں بدلنا چاہا تو آپ كی نگاہ انتخاب آپ پر پڑی، اور 28 رجب 1349/دسمبر1930 میں آپ كو وزیر خارجہ بنایاگیا، آپ نے سفارتی پختگی اور اعلی ذہانت كا ثبوت دیتے ہوئے اس ذمہ داری كو بحسن وخوبی نبھایا۔
ان سازشیوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ شاہ فیصل سعودی عرب كے وزیر خارجہ بننے كےبعد سے ہی  نہایت ہی منظم طور پر اقوام متحدہ، عرب لیگ او ر گول میز كانفرنس اور دوسری عربی وبین الاقوامی تنظیموں  میں مسلمانو ں كے مسائل كو اٹھانے میں پیش پیش رہے، بیرون ممالك كے سربراہان سے ملاقات ہو یا بیرونی ممالك كا سفر آپ كے ذہن میں ہمیشہ علاقائی وعربی مسائل گردش كرتے رہتے تھے، اور ان تمام مسائل میں قضیۂ فلسطین سرفہرست رہتا تھا۔جب 1932 میں موسكو كا سفر كیا تو سویت یونین كے سربراہ استالین سے ملاقات ہوئی، ان كے ساتھ آپ نے قضیہ فلسطین اور فلسطین میں یہودیوں كی ہجرت كے مسئلہ كو نہایت مضبوطی سے اٹھایا  اور  صہیونی تحریك كی وجہ سے عالمی امن كو جو خطرہ درپیش ہے، اس سلسلےمیں اظہار خیال كیا۔
ان اندھ بھکتوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ1939 میں قضیہ فلسطین  پر غور خوض كے لیے لندن میں منعقد ہونے والی گول میز كانفرنس  میں آپ نے اپنے ملك كی نمائندگی  كی، آپ نے اس موقع سے خطاب كرتے ہوئے برطانیہ كو وہ وعدے یاد دلائے جو اس نے عربوں سے كیے تھے، اور برطانوی حكومت سے مطالبہ كیا كہ یہودیوں كی ہجرت كو فورا روكا جائے، اور فلسطینی مسئلہ كا جلد اور انصاف پر مبنی حل پیش كیا جائے، انہوں نے بے باكی سے كہا كہ برطانوی حكومت كو اسرائیل كی تائید والا موقف  جاری ركھنا عربوں كو اس بات پر مجبور كرے گا كہ وہ عربی واسلامی ممالك میں برطانوی مفادات كے خلاف انتقامی كارروائی كریں۔
ان اندھ بھکتوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ شاہ فیصل نے اقوام متحدہ كے اسٹیج كا استعمال كركے فلسطینی مسئلہ كو بڑی بے باكی سے اٹھایا، آپ وزیر خارجہ رہے ہوں یا مملكت سعودی عرب كےسربراہ  ہر دو حیثیت سے آپ نے نہایت ہی مضبوطی كے ساتھ فلسطین كے مسئلہ كو اٹھایا،  وزیر خارجہ رہتے ہوئے 1932 میں موسكو میں فلسطین كے مسئلہ كو اٹھایا، 1939 میں گول میز كانفرنس میں اس مسئلہ پر اپنی بے باكانہ رائے پیش كی اور فلسطین میں یہودیوں كی ہجرت  اورفلسطین  كی تقسیم كی كلی مخالفت كی ،  1947 میں اقوام متحدہ كے اجلاس میں   جو فلسطینی مسئلہ كے سلسلے میں تھی  اور جس میں  امریكہ نے فلسطین كی تقسیم   كی تائید كی تھی، اس كانفرنس میں امیر فیصل نے  امریكہ كے ذریعہ صہیونیوں كی تائیدومدد  پرامریكہ كی كافی تنقید كی،  انہوں نے واضح طور پر كہا كہ مملكت سعودی عرب   فلسطین كی تقسیم كے فیصلہ كا   سخت مخالف ہے،  سعودی عرب،عرب او رفلسطینی قوم كے حقوق  كا دفاع كرتا رہے گا۔

ان اندھ بھکتوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ جب بھی موقع ملا آپ فلسطین كے مسئلے پر اپنا واضح موقف ركھنے اور فلسطینیوں كے حقوق واپس دلانے كے لیے كوشش كرنے میں پیچھے نہیں ہٹے ۔ انہوں نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ كا پلیٹ فارم بڑی بے با كی كے ساتھ استعمال كیا۔  1963 میں اقوام متحدہ میں خطاب كرتے ہوئے كہا،” اسرائیل كا وجود  ایسی كھلی سركشی ہے،تاریخ میں جس كی مثال نہیں ملتی، فلسطین عربوں كی سرزمین ہے اور فلسطین كے عرب قانونی طور پر اس كے باشندے ہیں”۔
ان اندھ بھکتوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ فلسطین كے موضوع  پر دیےگئے آخری خطبہ میں شاہ فیصل نے عالم عرب اور عالم اسلام كو خوب جھنجھوڑا او رانہیں مسجد اقصی كی بازیابی كے لیے تیار وپا بہ ركاب ہونے كےلیے للكارا۔
ان اندھ بھکتوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ اكتوبر  1973 میں  جب عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئ، اس موقع سے شاہ فیصل كے صبر كا پیمانہ چھلك اٹھا اورانہوں نے امریكہ  اور اسرائیل كو تعاون كرنے والے ممالك سے مكمل تعلقات منقطع كرنے كا فیصلہ  كرلیا، اور اسی بنیاد پر سعودی عرب نے  نہایت نازك  او رجان كو جوكھم میں ڈالنے والا فیصلہ لیتے ہوئے  امریكہ كو تیل  كی سپلائی بند كرنے كا تاریخی ومثالی اعلان كر دیا۔
ان اندھ بھکتوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ تیل  بند كرنا تھا كہ پوری دنیا میں ایك كہرام بپا ہوگیا ،  امریكہ واسرائیل شاہ فیصل كے جان كا دشمن بن گیا، سعودی عرب كو خطرات میں ڈالنے كی سازشیں ہونے لگی، لیكن شاہ فیصل اپنے فیصلے پر نہایت سختی كے ساتھ قائم رہے، تیل بند ہوتے ہی امریكی نظام اتھل پتھل كا شكار ہونا شروع ہوا،امریكہ میں  ایرپورٹ پر جہاز اور پٹرول پمپ پر گاڑیا ں تیل كے انتظار میں لائن میں كھڑی ہونے لگیں، امریكہ كے  صناعتی اور اقتصادی سیكٹروں پر بھی اس كا اثر دكھائی دینے لگا،  چنانچہ امریكہ حركت میں آیا اوراس نے اپنے وزیر خارجہ ہنری كسنجر كو سعودی عرب بھیجا، وہ 8 نومبر 1973 كو جدہ پہنچے، انہوں نے تین  امور تیل، قدس اور فلسطین اور فلسطینیوں كے امور سے متعلق بات چیت كی، شاہ فیصل نے قدس كے مسئلہ كو حل كرنے اور اسے مسلمانوں كےحوالے كرنے  كا مطالبہ كیا،مقبوضہ عرب اراضی كو خالی كرانے كی مانگ ركھی،  فلسطینیوں كو ان كا جائز حق دینے كا مطالبہ كیا،  اور اس سلسلے میں كسی طرح كے سمجھوتے سے انكار كیا۔ شاہ مكرم نے  ہنیری كو مخاطب كرتے ہوئے كہا میں ” وأنا رجل طاعن في السن، وأمنيتي أن أصلي ركعتين في المسجد الأقصى قبل أن أموت, فهل تساعدني على تحقيق هذه الأمنية؟ "میں عمر دراز ہوں، اور میری خواہش ہےكہ میں موت سے قبل مسجد اقصی میں دو ركعت میں نماز ادا كروں، تو كیا  تم میری اس خواہش  كو پورا كرنے میں مدد كروگے۔
ان اندھ بھکتوں کو کو  پتہ  ہونا چاہیے کہ فلسطین کے لیے امریکہ کو تیل بند کرنے کے پاداش میں ہی ان کے قتل کی سازش رچی گئی  اور شاہ فیصل بن عبدالعزیز  كے بھتیجے فیصل بن  مساعد بن عبدالعزیز كے ہاتھوں  25 مارچ 1975 میں رياض میں  ان كا قتل كردیا گیا، شاہ فیصل كویتی پٹرولیم  كے وزیر  عبدالمطلب الكاظمی كا شاہی محل  میں استقبال   كررہے تھے كہ فیصل بن مساعد نے آپ پر فائرنگ شروع كردی،  ایك  گولی آپ كے جسم كے اہم رگ میں داخل ہوگئی جو ان كی موت كا سبب بنا۔
کیا ان سب قربانیوں کے بعد بھی تم شاہ فیصل رحمہ اللہ کو ناعاقبت اندیش کہوگے؟ کیا اس کےباوجود بھی ان پر کسی مشورہ کو نہ ماننے کا الزام لگاکر ان کی خدمات کے ساتھ سازش کروگے؟ کیا اس کے باوجود بھی ان کے بارے میں نئی نسل میں غلط تاثر پیش  کروگے, تمہیں شرم کرنی چاہیے, فبأی آلاء ربکما تکذبان, تمہیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور افواہ پھیلانے سےباز آجانا چاہیے ۔

 801 total views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے