سیدمحبوب علی ندوی
فلسطین لہولہان ہے، فلسطینیوں کے خون بے دریغ بہائے جارہے ہیں، بچے اور عورتیں بھی بمباری کا شکارہورہی ہیں۔ اس پر جتنا غم واندوہ سینوں میں اٹھے اوراس کا اظہارجن لفظوں میں بھی کیاجائے کم ہے۔اس وحشیانہ وسفاکانہ روش کی جتنی بھی مذمت ہو یہ اسرائیلی صہیونی درندے اس کے اہل ہیں اوران کی جتنی بھی سرکوبی کی جائے کم ہے۔ان پر ساری دنیا جو لعنت وملامت کررہی ہے، بجا ہے اور اگر سب یک جٹ ہوکر ان پر حملہ آور ہوں تاکہ وہ ظلم سے باز آئے توبھی وہ اس کے مستحق ہیں۔ لیکن کیا یہ قضیہ فلسطین کا حل ہے اور کیا یہ مزید فساد کا سبب نہیں بنے گا اور فسادیوں اور طالع آزماؤں کے لئے موقع فراہم کرنانہیں ہوگا؟
یہ سب کچھ ہے،مگریہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ لعنت ملامت کون کرے؟ ان پر حملہ آورکون ہواورسب یک جٹ کیسے ہوں؟صرف عربوں کو کوسنا،گالی دینا اورمجرم ٹھہرانا کیاقضیہ فلسطین کو مزید کمزور نہیں کررہا ہے اور اس طرح کی تفریق و تنفیر دانش مندی یا نادانی کے کس پلڑے میں ہے؟ کیاقبلہئ اول اورمصلی الأنبیاء دراقتدائے امام الأنبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و حمایت کیا ہر مسلمان کا حسب حیثیت برابر کا فریضہ نہیں ہے؟ کیاتمام انبیاء علیہم السلام کی یہ مقدس سرزمین دنیا کے سارے مذاہب کے ماننے والوں کا لائق احترام مکان نہیں ہے؟ اور کیاتمام انبیاء پر ایمان و یقین رکھنے والے اس کے مظلوم مکین لائق تحفظ اور سزاوارِامن و سکون نہیں ہیں؟
ساری دنیا کی بات کرنا تضاد وتناقض کی بدترین بات ہوگی۔ہمارے کچھ بھائی مارے غم وغصہ اور جوش وہمدردی کے عالمی طاقتوں کوایک طرف کوس رہے ہیں تو دوسری طرف انہی کی دہائی بھی دے رہے ہیں اور پھر ایک ہی سانس میں ان کو اسرائیل کا سرپرست اورسرغنہ بھی قراردے رہے ہیں۔اس طرز تحریرو تقریر پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ بھائیو! مانا کہ غصہ بہت ہے،غم سے سینہ پھٹنے کا مقام ہے اور دل سیپارہ ہورہاہے۔مگر ہوش اور ہوشیاری میں بات نہیں کریں گے توفلسطینیوں کا نقصان بڑھتاجائے گا، آپ کے مظلوم فلسطینی بھائی مزید مسائل سے دوچار ہونے لگیں گے اورلوگ مزید جذباتی اوربے جاامید وگمان اور بھرم پالنے کے شکار ہوں گے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے اداروں اور دیگرمجالس عالم کو ہم بجاطورپر یہودی وصہیونی صیاد وجلادگردانتے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحے ان کی گہاربھی لگاتے ہیں توہم حقائق سے چشم پوشی توکرتے ہی ہیں اپنے آپ کو بھی لگے ہاتھوں جھٹلاتے چلے جارہے ہیں۔کیا اس طرح سے ہم ”جنوں میں بک رہاہوں کیاکیا“ کے مصداق تو نہیں بنتے جارہے ہیں۔ ان سب باتوں اور حرکتوں سے دشمن کو دوہرافائدہ ہورہاہے۔ سادگی میں اپنے بھی دھوکہ کھارہے ہیں، یا دھوکہ دے رہے ہیں امت کو،فلسطینیوں کو اور مظلوموں کو۔ہمیں اپنا حال خوب معلوم ہے کہ ہم بحیثیت مسلم امت اکثرمعاملات میں ”یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود“ کے مصداق ہیں اور ہم ذاتی مفادات اور وقتی حالات کے ہاتھوں بکنے کے علاوہ بلاضرورت اوربلاوجہ بھی تعصب وتنگ نظری میں بھی طاق ہیں،ہماری آپسی دشمنی ان نازک حالات میں بھی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ خاندانوں،گھروں،مدرسوں،کارخانوں حتی کہ کفار ومشرکین کے مشترک اداروں اورمحکموں میں بھی دومسلمان اکٹھا ہوجائیں توایک دوسرے کے درپہء آزار ہوجاتے ہیں۔ذاتیات، شخصیات، مفادات، انانیت اور حسدوکینہ اورمسالک ومشارب کے نام پر جب تک اس کے وجود کو مٹا نہیں دیتے اور اس کو وہاں سے ہٹوا نہیں دیتے چین کی سانس نہیں لیتے۔ خاندانوں، قبیلوں اور ذات پات،علاقائیت، رنگ ونسل اور زبان وتہذیب کی اتنی متناقض ومتضاد قسمیں اور بدتہذیبیاں ہیں کہ ہم سرے سے خود ایک دوسرے کے وجود ہی کے دشمن ہیں۔ نہ سکون سے رہتے ہیں نہ اپنے سگے بھائیوں کو چین سے رہنے دیتے ہیں۔بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط رشتہئ دین وایمان کوکاٹ کر ہی دم لیتے ہیں اوراس جہنم میں ہرجگہ اورہرسطح پر جل رہے ہیں۔دین سے دیگردوریاں جوہماری اس پستی اورذلت و خواری کی اہم وجوہات ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں۔ پھرہم وقتی طورپر کتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ آپے سے باہر ہوکراور مزید خوش فہمی پال کر دشمن کی چالوں کاشکار باربارہوتے ہیں۔یہ جذبات اور ہمدردی اضطراری حالات کی پیداوار ہوتی ہے۔ ورنہ عام حالات میں ہم کیوں خاموش رہتے ہیں؟ہم ان مظالم سے نپٹنے کے لئے دس سال، دوسال یا دوماہ پہلے ہی جب حالات کسی قدر پرسکون تھے، کم از کم ہم متحد کیوں نہ ہوئے؟ اس وقت دوسروں پرچپکے سے اسرائیل سے ملنے کا الزام تو دھردیا مگراپنے باور کرائے گئے اسلام کے علمبرداروں کو کئی دہائیوں سے سفارتی، تجارتی اور ہر طرح کے تعلقات بحال کئے رکھنے پر بھی یہی نہیں کہ مصلحت آمیز خاموشی برتتے ہیں بلکہ فلسطینیوں کے ان حلیفوں اور سفارتی اور تجارتی طور پر تسلیم کرلینے والوں اور ظالم صہیونیوں کو فائدہ پہنچانے والوں کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں؟کم ازکم ہم ان کے مظالم ہی کو رکوانے کی نصیحت کرکے اور فلسطینی مظلوم بھائیوں کو جینے کا موقع فراہم کراتے یاکم ازکم کوئی پالیسی بنانے کے لئے یہ ممالک وسربراہان کیوں اکٹھا نہ ہوئے؟اورجوکسی وجہ سے اکٹھا بھی ہوئے تو کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے،خصوصاًبھوکے اور بے یارومددگارفلسطینیوں کے لیے، جو ایک ایک روپیہ کے محتاج ہیں اور ادنی حرکت کے بھی قابل نہیں چھوڑے گئے ہیں۔ان مظلومین کی دادرسی کے لیے حرکت میں کیوں نہ آئے اور ان کے لیے کتنے ٹکے اکٹھا کئے؟حکمرانوں کو چھوڑیئے، ہم نے بحیثیت صحافی، عالم دین،عامی اور عوام ان مظلوموں کے لئے کیا کیا؟؟؟ ہم اصولااور ہمدردی کے طور پر بھی کچھ کرنے سے پہلے اس قدر مصلحت کوش اور اندیشہ ہائے دراز اور انجانے خوف کا شکار ہوکر بڑی سادگی سے یک جنبش قلم یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ ہماری حکومتیں خواہ اسلام کے نام پر بنی ہوں اور”مملکت خداداد“ ہی کیوں نہ ہوں ہماری جاسوسی کراتی ہیں اورہم کو دہشت گردوں کی فہرست میں داخل کرتی ہیں۔ایسے میں ہم خوداپنے جذباتی رویے اور بے ہنگم اقدام پر غور نہیں کرتے۔اے کاش کہ ہم اس طرح کی آزمائش کی گھڑی میں اپنے جذبات اور غم واندوہ پر کچھ تو قابوپاتے!
عزیزو، بزرگو اور حکمرانو! مجھے آپ کے اخلاص وشدت جذبات کا اندازہ ہے، مگر اس وقت ٹھنڈے دل، صبروحلم، حکمت و دانائی، بلند ہمتی اور عظیم حوصلے سے کام لینا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے فلسطینی بھائیوں کو ان کے رہے سہے قانونی و اخلاقی اوردیگرانسانی وایمانی حقوق سے بھی محروم کردیں اور ظالم کے پنجے کو اور زیادہ ضرب کاری اور ستم کاری سے گاڑنے کاموقع دے دیں اور یوں عالمی اورصہیونی سازش کامیاب ہوجائے اور ان کا دیرینہ خواب اور قدیم وعظیم منصوبہ بسلسلہئ فلسطین اورشام جوکسی سازش کے نتیجے میں مجوس اور ظالموں کے ہاتھوں میں جاچکا ہے اور جو عظیم مسلم طاقت تھی اس کا خاتمہ کیا جاچکا ہے اورعراق جس کا ایسا ہی حال کردیا گیا اورتبوک، اردن وغیرہ سارا خطہ اسی جھٹکے میں حسب منشاان کے ہاتھ میں آجائے۔ اس سازش کو ناکام بنانے اور بلاکو ٹالنے کے لیے کسی بھی زبانی وعملی اقدام سے پہلے خوب غورکرنے کی سخت ضرورت ہے۔آپ کہیں گے کہ جب دھیرے دھیرے یہ سب ہاتھ سے نکل ہی رہاہے توآج ہی دودوہاتھ کیوں نہ کرلیا جائے؟بعداز خرابی بسیار کیا کرپائیں گے؟آپ کا یہ وقتی فارمولہ، پرجوش اور انتقامی جذبہ بظاہر مفید نظرآرہاہے۔ مگرذرا غورکریں اپنی ایمانی واخلاقی اورانسانی حالت اور طاقت وقوت پر،قبل اس کے کہ آپ کسی لائق نہ رہ جائیں۔ پھررجوع الی اللہ،توبہ واستغفار اوردین حق پرمکمل گامزن ہوکرمیدان عمل میں آئیں۔اس وقت کرنے کاکام یہی ہے۔ہمارے بعض بھائی جوش میں ایک سانس میں اپنے بعض مسلمان بھائیوں،خطوں اور جماعتوں کویہود سے بدتراوران کاایجنٹ بھی کہہ رہے ہیں اور ان کی اجتماعیت اوراسلام کی دہائی بھی دے رہے ہیں۔بھائیو!ایک توہم بلا دلیل حکم لگاکر گنہگارہورہے ہیں،دوسرے ہم ان اکثر ممالک کے جغرافیائی، نفری، فوجی، اقتصادی، سیاسی اوراندرونی و بیرونی مشکل حالات اور معاملات کو خاطر میں لائے بغیر ان کوموردالزام ہی نہیں ٹھہرا رہے ہیں بلکہ انہیں مجرم اول قرار دے رہے ہیں،جب کہ ان نازک حالات میں بھی وہ حسب حیثیت اور حالت اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کررہے ہیں (اور یہ معلوم ہے کہ ساری مسلم دنیا خصوصاً کویت، قطر اور امارات وغیرہ خلیجی حکومتیں اور عوام اول یوم سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرتی رہی ہیں اوران سب سے کہیں زیادہ اکیلے مملکت سعودی عرب کے عوام و حکام ان کی امدادکرتے رہے ہیں جس کو دوستوں سے زیادہ دشمن محسوس کرتا ہے)،ان سب کو ختم کردینے کی سزا تجویز کرکے کیا اپنی رہی سہی قوت اور وجود کو ختم کردینے کے لئے ہوا تو نہیں کھڑاکررہے ہیں اور یخربون بیوتھم بأیدیہم و أیدی المؤمنین کا یہودی وطیرہ خود یہود دشمنی میں تو نہیں اپنارہے ہیں؟ یقینا ایسے نازک وقت میں آپسی نفرت اور اختلاف کوہوادے کراپنے آپ کوکمزوراوردشمن کواورزیادہ کھل کھیلنے کاموقع دے رہے ہیں۔ دشمن نفرت اوردشمنی ہرسطح پر اور ہرملک اور خطہ میں پھیلاکر ہرجگہ خصوصاًمسلم اقلیتوں میں ایسی عداوت کا بیج بوکر ان کو اورزیادہ کمزورکرنے اورالجھانے کاکام کررہے ہیں۔خدارا خود ہم غور فرمائیں!جبکہ مسلم امت خصوصاً مسلم اقلیت خودہرجگہ بے شمارمشکلات اورچیلنجوں کی شکار ہے، ایسا کرکے ہم ان کی مزید مشکلات کے لئے جواز فراہم نہ کریں اور ان کی مصیبتوں اور انتشار میں اضافے کا سبب نادانستہ طور پراس وقت ہرگز نہ بنیں۔اس نازک حالت اور اہم موڑ پر ہر سطح اور ہر طرف سے وہ طریقہ اپنائیں اور راہ دکھلائیں جس سے مسلم امہ میں کسی طرح کا اضطراب و اختلاف پیدا کئے بغیر اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد اور قبلہئ اول کی بازیابی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ورنہ مسلم ممالک میں بے چینی کی اس نفرت والی بیج سے وہاں کی چولیں مزید ہل جائیں گی۔پھروہ دشمن اسرائیل سے کیا خاک مقابلہ کرسکیں گے!اس لیے داخلی طورپر خود کومضبوط بنائیے اور خالص اللہ کی رضا کے لیے اوراس کے دین وشریعت کی روشنی میں اتحادویکجہتی کے سارے سامان بہم پہنچائیے۔ورنہ یہود ومشرکین کے انتقامی وغیرانسانی ظالمانہ فارمولے کواپناکر رحمت للعالمین اوررب العالمین والی یہ امت ہرگز ہرگزکامیاب نہ ہوگی۔بلکہ اس نفرت کی کھیتی کے ذریعے جس کوپھیلاکر یہودکامیاب ہوتاہے ہم مزیدذلیل وخوارہوں گے کیونکہ یہ ابلیسی اور صہیونی ہتھکنڈہ ہے، اسلامی اور انسانی ہرگز نہیں۔یہی ہمارا عبرالقرون تجربہ رہا ہے،تاریخ بھی اسی پر شاہد عدل ہے اورعقائد واعمال اسی پر دال رہے ہیں۔مصیبت وغم اورسانحات متواترہ کی اس گھڑی میں ہمارے کچھ بھائی ہرملک میں اورہرسطح پر مسلم امہ کو للکارتے،پھٹکارتے، پھنکارتے اور دِھت کارتے ہوئے اورکبھی کبھی اسلامی بھائی چارہ کی دہائی دیتے ہوئے سب کواکٹھا کرکے اسرائیل پرحملہ کرانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیائی مشینریاں اس کو ایساجامع ومانع، مفید ومکمل اورمحکم منشور اوراعلان بناکر پیش کررہی ہیں کہ گویا یہ نہ ہوا توساری دنیا کے مسلمان خصوصا عرب ممالک غدار اور مجرم وناہنجار ہیں۔بھائیو! ہم آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن عملی تجربے،ایمانی ضعف،مسلمانوں کے آپسی نفاق وشقاق اور اختلاف وانتشار کے اس ماحول میں جذباتی نعرہ کے ذریعے اگرآپ سب کو متحد کرکے”جو موجودہ حالات میں ممکن نہیں“ حملہ کرارہے ہیں توکیا الکفر ملۃ واحدۃکے تحت یہود کا مسلم دشمنی میں اورنصاری و کفار کا”بغض علی“ میں ایک جان وجسم ہونے کاعینی مشاہدہ اور عملی حقیقت آپ کے سامنے نہیں ہے؟ اور کیا آپ کے یہ سارے دشمن و چھپے رستم،مصلحت آمیزہمدرد اور ظاہرداری اور وضعداری سے پیش آنے والے جانبدار و غیرجانب دار ممالک، انجمنیں اور شخصیات جن کو یک جنبش قلم آپ کھلم کھلاکنارے کررہے ہیں،دشمن گردان رہے ہیں، مجرم بنارہے ہیں، کیا یہ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟آخر ہم ان سب کو اگر وہ ہمارے دشمن ازلی بھی ہوں تب بھی ایک ساتھ ہی دشمن کی جھولی اور پالے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ اور مسلم حکمرانوں اور مسلمانوں کو ان کے حالات پر غور کئے بغیر اور عواقب و انجام پر نظر ڈالے بغیریہودیوں کے خلاف صف آرا ہوکر دھاوا بولنے کی دعوت عام سے کون سے فلسطینی کاز کو فائدہ پہنچارہے ہیں؟ خدارا اپنے رویے پر غور کریں!!!
کیا ہمیں معلوم نہیں وہ کس طرح ساری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ اکٹھا ومتحدہیں اورکیا وہ متحد ہوکر اس عالمی جنگ کے ذریعے مسلمانوں کومستقبل بعید تک انتہائی ہزیمت خوردہ اور پسپا نہیں کردینا چاہتے؟۔میرے دینی وملی غیور عزیزو!یہ وقت ہے ہمت نہ ہارنے کا،صبروحلم کا،حکمت و اعتدال کو ضالۃالمؤمن بنانے کاآپسی الجھاؤکو ختم کرنے اورایک دوسرے کو کم ازکم لائق رحم سمجھ کربرداشت کرنے اور سنبھالنے کا اور خود اپنی طاقت روحانی وایمانی کوباہر لانے کا، اعدولھم ماستطعتم من قوۃ کی روشنیمیں قوت ایمانی کو مستحکم کرنے کے ساتھ مادی قوت کوبھی مجتمع ومہیا کرنے کا۔ یہ بے تیغ لڑنے کا جذباتی فارمولہ اپنانے کا وقت نہیں ہے۔ کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ
”مومن“ ہے توبے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی
مگر سپاہیوں کی بھیڑکو دہائی کم از کم تب دیں جب وہ ایمانی واخلاقی اسلحوں سے لیس ہوں، گرچہ وہ مادی اسباب و وسائل سے عاری ہوں۔ ورنہ اگر وہ وانھم غثاء کغثاء السیل۔کے مصداق سمندر کے جھاگ ثابت ہوتے رہے تو خسارہ ناقابل تلافی ونالائق معافی ہوجائے گا۔خود آپ اپنے وطن عزیز میں بھی ان جذباتی نعروں اور عوام کو ورغلا کرہم کس سطح پر پہنچا چکے ہیں اور ہم نے متحد کن کو کیا اور فائدہ کس کو پہنچارہے ہیں۔اس لیے مؤمن کوآواز دیجئے،ایمان واسلام کی دہائی دیجئے! ورنہ سیریا جہاں حالت سب سے زیادہ سیریس ہوگئی ہے اور جہاں خون آشامی اور ویرانی کی انتہاہوگئی اور اس طرح اصل مسلم سیریا ختم ہوگیا۔وہاں جیش الحرجوظالم بشار کے فوجوں کو زیر کرچکا تھااور اس کے قصر تک پہنچ چکا تھا، اس کا میڈیا اور عالمی طاقتوں نے چند ہی دنوں میں نام ونشان بھی کھرچ کر مٹادیا اورپرجوش و باغیرت ناعاقبت اندیش مسلمانوں کے ہیرو ISISداعش راتوں رات چھاگئے، یا مسلط کردیئے گئے اور پھر وہ خس وخاشاک کی طرح بہادیئے گئے، ان کے نام پر پوری مسلم امت کو برباد کردیا گیااورسلسلہ ہنوز درازکیا جاتا رہا ہے۔ یہ دہشت گرد ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ کہیں کچھ یہی کام فلسطینیوں کو ختم کرنے کے لئے نہ کیا جارہا ہواور وہی فارمولہ ومنصوبہ یہ سازشی ٹولہ فلسطینیوں کی ہمدردی کے نام پریہود کے ساتھ مل کر پرجوش جوانوں کو کچھ گولے تھماکر سیر یا وغیرہ کے انجام سے دوچار کردینے پر آمادہ نہ ہو؟عزیزو ذرا غور کرو جن فلسطینی بھائیوں کو دو وقت کی روٹی قاعدے سے میسر نہ ہو، اسے لایموت میسر نہ ہو، ایک بلب اور بجلی کا کرنٹ بھی جب چاہے اسرائیل ختم کردے، ان کو اسرائیلی جنگی قوتوں کے مقابلے میں پھولجھڑی کی ہی سہی میزائل کیسے مل جاتا ہے؟آخر ہم اتنے تجربوں سے گزرکر، آزمائشوں سے دوچار ہوکر، سازشوں کا شکار ہوکر اورپے بہ پے ٹھوکریں کھانے کے ساتھ اور پستی کی اس سطح پر پہنچنے کے بعد بھی کب سرخرو ہوں گے اور ہوش کے ناخن کب لیں گے؟بہرحال بہت حکمت وصبر وحوصلے کی ضرورت ہے ورنہ
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے
اے کاش کہ ان حالات کو گہرائی وسنجیدگی سے سمجھنے اور خلیج اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے خلاف سازش رچنے والوں کی نقاب کشائی کے لئے حضرت مولانانورعالم خلیل امینی اور حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی جیسے مردانِ دارالعلوم دیوبند اور ترجمانان اہل سنت زندہ ہوتے۔پھر بھی ان کی کچھ پرانی تحریریں اداریہ کی شکل میں موجودہیں۔نیز حضرت مولانا منظورنعمانی نوراللہ مرقدہ کی اس سلسلے کی تصانیف جوعالم عربی واسلامی کے خلاف ریشہ دوانی کرنے والی قوتوں اور صہیونی دوستوں کی نقاب کشائی اور معرفت کے لئے دیکھی جاسکتی ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی اور ہمارے ان بے انتہاء مظلوم بھائیوں کا حامی و ناصر ہو۔
669 total views