شاکر عادل عباس تیمی
پچھلے تقریبا ہفتہ عشرہ سے فلسطینی عرب کو خون ریزی اور تباہی کا سامنا ہے۔پوری دنیا کی گودی میڈیا گرچہ اسے خونی جھڑپ اور تصادم کا نام دے رہی ہے،مگر سچائی نگاہوں کے سامنے ہے ،جسے فلسطینی عرب کی نسل کشی کہیں گے،جنہیں ‘‘حماس’’اور دیگر فلسطینی تنظیموں کی ناعاقبت اندیشی نے بیت المقدس کے نام پر نہتا قربان ہونے کے لیے چھوڑدیا۔ہو سکتا ہے آپ کا نظریہ اس جنگ کے تئیں مختلف ہو،اور آپ اسے اہل فلسطین کی بہادری اور جرأت مندی پر محمول کررہے ہوں کہ وہ لوگ ہاتھوں میں پتھر لیے مسلح افواج اور اور ان کے جنگی طیاروں،میزائیلوں اور ظلم وبربریت کا ثبات قدمی کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں۔بلاشبہ ایسا ہی ہے!پچھلی سات دہائیوں سے اہل فلسطین کو جس قسم کی بےدخلی اور ظلم وجبر کا سامنا ہے اور وہ اس کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں،یہ بڑے عزیمت اور حوصلے کی بات ہے۔لیکن اس مبارزت اور مقابلے میں جو سب سے پریشان کن بات ہے وہ یہ کہ صہیونیوں سے ان کا دور دور تک کوئی مقابلہ ہی نہیں،اور فلسطینی عرب اور ان کے نام نہاد قائدین بھی پچھلے 70سالوں میں ‘‘پتھر بازی’’سے بعد کی لکیر کو نہیں عبور کیا ۔اب یہ حماقت ہی تو ہے کہ صہیونی فضائیہ بم برسائے اور ہم اس جنگجو طیارے کو پتھر سے نشانہ سادھیں۔اور حقیقت اسی کے اردگرد ہے،خواہ آپ جس قدر بھی ‘‘حماسی’’میزائیل پر خوش ہولیں،مگر اس کا دم خم اسرائیلی اسلحہ جات کے سامنے دیوالی کے پٹاخوں اور اس کے راکیٹ سے کچھ بھی زیادہ نہیں،اور نتائج یہی ہیں۔اسرائیلی فضائیے کا ایک بم جہاں دردناک تباہی لا رہا ہے،وہیں حماسی راکیٹ اپنی چیخ وپکار کے ساتھ فضاؤں میں گم ہوجارہا ہے۔
جوناتھن مارکس جو کہ خارجی امور کے تجزیہ کار ہیں، بی بی سی نے ان کی رپورٹ شائع کی ہے،ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ اسرائیل اور غزہ پٹی میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان حالیہ کشیدگی میں دونوں جانب تباہی اور ہلاکتیں ہوئی ہیں ،مگر اس لڑائی میں دونوں فریق برابری کے نہیں ہیں۔اسرائیل کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے پاس فضائیہ ہے، مسلح ڈرون ہیں، انٹیلی جنس جمع کرنے کے نظام ہیں اور وہ جب چاہے غزہ پٹی کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
اور اس میں کچھ بھی جھوٹ نہیں،بلکہ طرفین سے آنے والی خبروں میں تباہیوں اور تعداد اموات کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔بی بی سی اردو نے اپنے ایک کیپشن میں اس تلخ سچائی کو لکھا ہے کہ تقریباً ایک ہفتے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرتشدد تنازع جاری ہے جس میں اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک 39 بچوں سمیت 139 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ حماس کے جوابی راکٹ حملوں کے نتیجے میں 10 اسرائیلیوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
بلکہ فلسطینی عوام کی ہلاکتوں کا یہ اعدادوشمار اب تو دوگنا اور تین گنا زیادہ ہوگیا ہے ،اور اس میں اوربھی روح فرسا اضافے کا امکان ہے،اس لیے کہ اسرائیلی حملوں میں جوں جوں شدت آئے گی تباہی اور اموات کا گراف بڑھتا ہی جائے گا۔اسرائیلیوں کی اس بربربیت وسفاکی پرجہاں اسلامی اتحاد کی خاموشی افسوس ناک ہے ،وہیں عالمی برادری کا رد عمل بھی جذباتیت سے زیادہ کچھ نہیں،جس میں لوگوں کا جم غفیر فلسطینی علم اٹھائےسڑکوں پر ہے،اور جنگ روکنے اور حریت فلسطین کی آواز بلند کررہا ہے،لیکن نتیجہ سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے نزدیک اس قسم کے مظاہرات کی قطعی کوئی اہمیت نہیں،اور نہ ہی وہ کسی کو بھی خاطرمیں لانے والا ہے۔اس جانب ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انقلابی تحریک کے باب میں علم برداری اور مظاہرے کی کس قدر اہمیت ہے اور یہ کتنا مؤثر ہوتا ہے،اور کب ہوتا ہے؟اس کی اہمیت کا توا نکار نہیں کیاجاسکتا،اور نہ ہی اسے غیر مؤثر کہا جاسکتا ہے،البتہ اتنا ضرور ہے کہ کمزور قوتوں کا مظاہرہ سرکشوں اور ظالموں کو لگام تو دور اس کے خطرناک ارادوں سے باز بھی نہیں رکھ سکتا ۔ ہندوستان میں پیش آنے والے 2آندولن کی مثال آپ کے سامنے ہے ،ایک تو این آرسی کے خلاف چلائی جانے والی ملکی سطح کی تحریک ،جس کا مرکز دہلی کے شاہین باغ کو قرادیا گیا اور وہ تحریک دم توڑ گئی۔جب کہ مہینوں سے چلایاجارہا ‘‘کسان آندولن’’اب تک ڈٹا پختہ عزائم کے ساتھ پامردی سے مقابلہ کررہا ہے۔
معلوم یہ ہوا کہ اہمیت اور تاثیر تعدادفرد سے نہیں ہوتی،بلکہ اس کے اندر کارفرما قوتیں انہیں بالادستی عطاکرتی ہیں ،خواہ وہ اقلیت ہی میں کیوں نہ ہوں۔مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ڈیڑھ ارب کی آبادی والی یہ قوم آٹے میں نمک کے برابر یہود سے ڈری سہمی اور خوف میں لپٹی دنیا سے مدد کی بھیک مانگ رہی ہے اور الأمان الأمان پکاررہی ہے۔کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی بکھری قوت کو جمع کریں،اپنی صفوں میں اتحاد لائیں۔خود غرضی کے خول سے باہر نکلیں،قوم وسماج کی تعمیرو ترقی میں اپنی شراکت کو یقینی بنائیں،اور اس کے لیے جس قسم کی بھی قربانی ہو،اس سے دریغ نہ کریں۔یاد رہے تعلیم ہی کسی قوم کو اس کا کھویا ہوا وقار دلاسکتی ہے ،اس لیے اس محاذ پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی اہل فلسطین اور پوری دنیا کے مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔
(مضمون نگار مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہیں اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔)
7,279 total views