اصغر علی امام مہدی سلفی
آج ہم ہندوستانی خوشیوں سے سرشار ہیں، ہم میں سے ہر شخص وطن کی عظمت و رفعت کی ثناخوانی کررہا ہے، وطن عزیز سے قلبی لگاؤ کا عملی مظاہرہ کررہا ہے، ملک و وطن کی ترقی کے لئے نیک جذبات کا اظہار کررہا ہے، حب الوطنی پر مبنی ترانے گا رہا ہے، جدوجہد آزادی کے جیالوں کی قربانیوں کو یاد کررہا ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کررہا ہے اورایسا ہوبھی کیوںنا! ۔ہم اس وطن کے باسی ہیں اور وطن کے درو دیوار اور اس کی مٹی سے محبت فطری ہوتی ہے، ہم میں سے ہر شخص اپنے ملک سے محبت کرتا ہے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا سرگرم کردار نبھاتا ہے۔
پورا ملک جشنِ یوم آزادی منا رہا ہے اور یوم آزادی کی داستان خونچکاںکو مختلف ناحیوں سے یاد کررہا ہے انگریزوں نے تجارت کے مقصد سے ہندوستان میں قدم رکھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی اوریہاں درپردہ سازشوں کے ایسے تانے بانے بنے کہ انہوں نے ایک دن پورے ملک پر قبضہ کرلیا اور تقریباً دو سو سالوں تک اس ملک پر حکومت کی۔ انہوں نے وطن عزیز ہندوستان کو خوب لوٹا، سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک کو تاراج کردیا ، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، انہیں موت کے گھاٹ اتارا، اسی دہلی کے اندر مؤرخین کی مانیں تو ایک ایک دن میں ہزاروں علماوعوام کو موت کے گھاٹ اتارا اور پھر ان کی نعشوں کو درختوں سے لٹکادیا۔
اگر ظلم و ستم کی کہانی بس اتنی ہی ہوتی تو شاید برداشت کرلیتے لیکن ہمارے اکابرین کو انڈمان نکوبار میں واقع کال کوٹھریوں کی سزائیں دیں، ان پر ظالمانہ ٹیکس نافذ کئے اور ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ اس کے ادنیٰ تصور سے جسم لرزہ براندام ہوجاتا ہے اور پورے وجود پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔
انگریزوں کے مظالم کی داستان بہت دردناک اور سفاک ہے۔اس مشکل گھڑی میں وطن عزیز کے باشندوں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی مہم چھیڑی، جنگ آزادی کی اس مہم میں ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی، پارسی اور جینی سبھی مذاہب کے لوگ شانہ بہ شانہ شریک تھے اور سبھوں نے ممکنہ کوششیں صرف کیں۔ غدرکے بعدمہاتما گاندھی نے تاریخی تحریک عدم تشدد کے ذریعہ سے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور چمپارن کی دھرتی سے ستیہ گرہ کی شروعات کی۔ ڈاکٹر سبھاش چندر بوس نے تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا جیسے پرجوش نعرے کے ذریعہ آزادہند فوج کا قیام کیا اور آزادی کا بگل پھونکا، پنڈت نہرو آزادی کے مہم کے ہراول دستے میں شامل تھے، سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آہنی سوچ و فکر کے طور پر اپنی پہچان بنائی، اس کے علاوہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہمارے اکابرین نے آزادی کی یہ جوت ہندوستانیوں کے دل میں جگائی۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادہ شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اولین فتویٰ دیا اور اس تعلق سے تحریک شہیدین کی کاوشیں بھی تاریخ کی کتابوں میں آب زر سے لکھی ہوئی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی صحافت کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف مہم چھیڑی اور پابند سلاسل ہوئے، اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل، ڈاکٹر راجندر پرساد وغیرہ آزادی کے جیالے رہے اور سب نے وطن کو آزاد کرانے کے لئے بے دریغ قربانیاں پیش کیں اور ان میں سے کچھ نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا تو کچھ لوگوں نے قید و صعوبت کی زندگی ترجیح دی۔
اس موقع سے بڑی ناسپاسی ہوگی اگر ہم صادقانِ صادق پور پٹنہ کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش نہ کریں اور اس خانوادے کے بزرگان کا ذکر جمیل نہ کریں کیونکہ اس اکیلے خاندان کی قربانیاں تاریخ کے ابواب میں آب زر سے لکھی ہوئی ہیں، حتی کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی کہا تھاکہ اگر تمام اہل وطن کی قربانیوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور علمائے صادق پور(اہل حدیثوں) کی قربانیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو علمائے صادق پور کی قربانیوںکاپلڑا بھاری ہوگا۔
تمام مذاہب کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کی قربانیاں مسلمہ حقیقت ہیں اور ان میں بھی علمائے اہل حدیث کی قربانیاں تاریخ کا روشن باب ہے جس کا اعتراف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر جیسے متعصب مورخ نے بھی اپنی تاریخ میں کیا ہے اور ہندوستان کا چپہ چپہ ہماری قربانیوں کا شاہد ہے اور کوئی ایسا کونہ نہیں جس کی مٹی ہمارے خون سے لال نہ ہوئی ہو۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگرعلمائے اہل حدیث نہیں ہوتے اور انہوں نے سب سے پہلے دردمند آزادی میں بے مثال قربانیاں پیش نہ کی ہوتیں توآزادی کی صبح فروزاں نمودار ہونے میں تاخیر ہوسکتی تھی۔ جس کا اپنوں اور غیروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔آج پورے ہندوستان کے دینی مدارس اور جامعات کے اندر پورے جوش و خروش اور روایتی رنگ آہنگ کے ساتھ تقریب یوم آزادی کاانعقاد ہورہا ہے اور قومی پرچم ترنگا پھہرایا جارہا ہے جس کا انہیں بجاطور پہ حق پہنچتا ہے کیونکہ ان کا دین و عقیدہ حب الوطنی کی تعلیم دیتا ہے اور یہ اس قومی تہوار کوجدوجہدِ آزادی میں اپنے اسلاف کی بے مثال قربانیوں کی یادگاراوروطن عزیز کی روایتی گنگا جمنی تہذیب اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت کے طور پر مناتے ہیں۔
جنگ آزادی کی اس مختصر سرگزشت کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ ہندوستانی ہونے کے ناطے ہم پرملک وملت کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟ وطن عزیز ہندوستان کی فضا جسے مسموم کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس پر کیسے قدغن لگائی جاسکتی ہے؟
وطن عزیزکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی اساس سیکولرزم پرہے۔ اس ملک میں ان گنت مذاہب کے لوگ الفت و محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔ہماری تہذیب گنگاجمنی تہذیب کہلاتی ہے، ہمارے اسلاف نے جنگ آزادی میں جس طرح شیرو شکر ہوکرحصہ لیا، اسی اسپرٹ کو ہمیں آج بھی بحال رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک رو بہ ترقی گامزن رہے، ملک دشمن عناصر کا قلع قمع ہوسکے اور ہم سب کی متحدہ کوششیں ثمرآور ہوں۔ہندوستان جیسے کثیرالمذاہب ملک میں سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم سب اپنے اندر قوت برداشت پیدا کریں،اپنے آس پڑوس کے لوگوں سے پیش آمدہ مسائل پر نہ الجھیں۔ اگر ہم نے اسی اسپرٹ کو اپنی زندگی میں اتار لیا تو موجودہ زمانے کے بہت سارے خرخشے، بہت سارے مسائل اور ناچاقیوں کا قلع قمع ہوسکتا ہے اور ملک جنت نشاں بنارہ سکتا ہے۔
دوسری بات جوہر ہندوستانی پر لازم ہے وہ یہ کہ ہرہندوستانی آئین کا پاس و لحاظ رکھے، جب ہم ملک کے آئین کی پاسداری کریں گے تو ایک اچھا شہری بن سکیں گے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے سکیں گے۔ ہمارے ملک کا آئین دنیا کے عمدہ ترین آئینوں میں سے ہے اور اس کی بنیاد سیکولرزم پر ہے۔ اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں ہندوستانی آئین کو فالو کرے گا تو وہ کسی کو حقیر نہیں سمجھے گا، کسی دھرم کو نیچا نہیں دکھائے گا، کسی کے تعلق سے بغض و عناداورتعصب کا جذبہ نہیں رکھے گا اور کسی کی مذہبی آزادی میں دخل انداز نہیں ہوگا، اس کے برعکس جب ہم ملک کے آئین وقوانین کی پاسداری نہیں کریں گے تو ہر جگہ بے راہ روی کا دور دورہ ہوگا اور فتنہ و فساد ہر سو عام ہوجائے گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں اس مبارک موقع پراپنے آباء و اجداد اور اسلاف کی قربانیوں کو یاد کرناچاہئے اور وطن کے تئیں ان کی محبت و الفت کو پڑھنااور دیکھنا چاہئے کہ کس طرح انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن وطن عزیز کو شرمسار نہیں ہونے دیا یا وطن عزیز کی عظمت پر آنچ نہیں آنے دیا، ہمیں اسلاف کرام سے اس جذبہ کو سیکھنے اوراسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وطن ترقی کرے اور اوج ثریا تک پہنچے۔
چوتھی بات اگر ہم ہندوستان کے خیرخواہ ہیں اور ہمارے دلوں میں ہندوستان کے لئے خیرخواہی کا جذبہ ہے تو ہمیں بہرصورت روایتی،قومی،یکجہتی، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو بحال رکھنا ہوگا کیونکہ سرسیداحمدخاں کی تعبیر میں قدرے ترمیم کرکے کہیں تو اس ملک کا ہرشہری دلہن کی خوبصورت آنکھ کی طرح ہے اوراس میں سے کسی ایک کو نقصان پہنچانا اس خوبصورت دلہن کو بدصورت بنانے کی طرح ہے۔ مولانا آزاد علیہ الرحمہ ہی نے مذہبی رواداری کی قیمت پر حاصل ہونے والی آزادی کو نہ قبول کرنے کی بات پر زور دے کر ہم ہندوستانیوں کے سامنے قومی رواداری کی عظمت کو اجاگر کیا تھا اور اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ اگر تم وطن کے حقیقی بہی خواہ ہو تو مذہب و دھرم کی ساری تفریق کو بھلاکر وطن کے لئے مخلص بن جاؤ اور کسی کے وطن پریم پر ہرگز شک و شبہ نہ کرو کیونکہ پھر بے اعتمادی کی کیفیت پیدا ہوگی۔
ہمارے اسلاف نے قومی رواداری کی اہمیت کو سمجھاتھا تبھی انہوں نے ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں بھائی بھائی کا نعرہ لگایا تھا اور آج کے دور میں جبکہ ہماری پرامن فضا کو مسموم کرنے کی کسی حد تک لوگوں نے کوشش کی ہے، اس نعرے کی معنویت، افادیت اور اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔الحمدللہ ! مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند مذہبی رواداری کو فروغ دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے اور ہمیشہ قومی رواداری کی بات کرتی رہی ہے اور اس سلسلے میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے قابل قدر کارنامے ہیں۔
ملک کے ہر شہری پر یہ بھی لازم و ضروری ہے کہ وہ امن و شانتی کا پرچارک بنے، ہر انسان کے مطمح نظر ملک کی تعمیر و ترقی ہو، ہر شہری اپنے اوپر عائد ذمہ داری نبھائے اور کبھی اپنی ذمہ داری دوسروں پر نہ ڈالے، ہر شخص دوسرے کے تئیں احترام کا جذبہ رکھے اور ملک مخالف سرگرمی سے خود کو ہمیشہ دور رکھے۔ اگر ہم سچے اور پکے ہندوستانی ہیں اور ہمارے خمیر میں ہندوستانی مٹی شامل ہے تو یقین جانئے ہم وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار نبھائیں گے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
188 total views