مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے شیخ العرب والعجم استاذ الاساتذہ ،سندالعلماء ،بقیۃ السلف ،مشہور عالم دین مولانا محمد اعظمی صاحب کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیاہے اوران کے سانحۂ ارتحال کو ملک وملت اورجماعت وجمعیت کا عظیم خسارہ قرار دیاہے۔ مولانا محمداعظمی صاحب کا گزشتہ کل بتاریخ ۱۱؍جولائی ۲۰۲۳ء تقریباً سوانوبجے ۹۳ سال کی عمرمیں انتقال پُرملال ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی جاری کردہ پریس ریلیزکے مطابق ان کی پیدائش مردم خیزدینی وعلمی سرزمین مئومیں ۲۴؍اکتوبر۱۹۳۰ء کوہوئی تھی اورابتدائی تعلیم جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں ہوئی۔جامعہ عالیہ عربیہ میں ثانویہ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں بھی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ اسلامیہ فیض عام سے ۱۹۵۰ میں سند فراغت حاصل کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے عالم ، فاضل، دینیات اور فاضل ادب کی بھی ڈگریاں حاصل کیں۔
جامعہ عالیہ عربیہ مئو، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ ، جامعہ فیض عام ،مدرسہ فیض العلوم سیونی، کلیہ فاطمۃ الزہراء للبنات میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔ ان کے درس وتدریس کی مدت تقریباً ۴۵برسوں پر محیط ہے۔انہوں نے مولانا محمدسلیمان مئوی ، مولانا احمد بن ملا حسام الدین مئوی، محدث جلیل مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی، مولانا عبدالصمدمبارکپوری، مولانا عبداللہ شائق مئوی، مولانا عبدالرحمن مئوی، مولانا نذیراحمد املوی مبارکپوری، مولانا عبدالسبحان اعظمی عمری، مولانا حافظ عبدالواحدعمری رحمہم اللہ وغیرہم جیسے جلیل القدر واکابر علماء سے اکتساب فیض کیا۔ ان میں سے متعدداساتذ ہ میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے ہیں اس اعتبارسے مولانا محمداعظمی مرحوم کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ بیک واسطہ میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے شاگردہیں۔
آپ نے درس وتدریس کے دوران متعددکتابیں بھی تصنیف کیں جن میں دین کیاہے، آداب زواج، شریعت وعادت، نقوش رحمانی (شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانیؒ کے جوابی خطوط)،کائنات کا آغازوانجام، نمازنبوی، مستند دعائیں، متفقہ فتوی، تلخیص فقہ السنہ ،تذکرۃ البخاری، دعایۃ الایمان (تسہیل وتخریج) ،قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے آداب، التحلی بالذہب للنساء، جیسی مشہورنفیس ومحقق کتابیں ہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے انہیں ان کی تدریسی ، تعلیمی، تصنیفی اور اصلاحی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازا تھا۔ آپ برصغیرکے ان چندعلماء میں سے تھے جو فن حدیث میں سندعالی رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں مولانا محترم سے عرب وعجم کے ہزاروں طلباء نے علم حاصل کیا جو ملک وبیرون ملک دعوت وتبلیغ اوردرس وتدریس میں سرگرم عمل ہیں اوریقینا یہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔
امیرمحترم نے مزیدکہاکہ مولانا محمد بن مولانا عبدالعلی بن شیخ عبداللہ بن مولانا علیم اللہ بن حکیم جمال الدین رحمہ اللہ بڑے خلیق و ملنسار، سادگی پسند، متواضع، علماء نواز اور ورع و تقویٰ میں سلف کی یادگار تھے۔ان کا انتقال علمی و تحقیقی دنیا کا عظیم خسارہ ہے۔مرحوم کے اندر دینی وجماعتی غیرت کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جماعتی کازوسرگرمیوں سے بڑی دلچسپی لیتے تھے اور وقتاً فوقتاً مرکزی جمعیت کی دینی، علمی، فلاحی، تصنیفی وتالیفی خدمات کی ستائش اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔
مولانا مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے کاز سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اور ناچیز کو بہت عزیز رکھتے تھے اور جمعیت کی ہمہ جہت خدمات کے بارے میں سن کر خوشی کا اظہار کرتے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔ابھی کچھ دنوں پہلے لوہیا ، مبارک پور کے جلسے کی مناسبت سے محض مولانا سے ملاقات اور دعا کی غرض سے حاضر ہوا۔ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ آپ ماشاء اللہ بہت ساری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہرملاقات میں بے حد ہمت افزائی فرماتے تھے۔اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے۔ بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
پریس ریلیز کے مطابق مولانا کی نمازجنازہ آبائی وطن مئومیں عیدگاہ اہل حدیث ڈومن پورہ پچھم میں اداکی گئی۔ جس میں علماء ومشائخ ، طلباء مدارس اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔پسماندگان میں معروف ومشہور قلم کار اور جید عالم دین مولانا اسعداعظمی سمیت چھ بیٹے عزیزان احمد، اجود، ارشد، امجد، اسجداور چھ بیٹیاں اورمتعددپوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اوربھراپوراخاندان ہے۔
اللہ تعالیٰ مولاناکی خطاؤں اور لغزشوں کو معاف کرے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور جملہ پسماندگان، متعلقین کو صبروسلوان کی توفیق نیز جماعت وجمعیت اورملک وملت کوان کانعم البدل عطافرمائے۔آمین۔
پریس ریلیز کے مطابق مرکزی جمعیت کے دیگر ذمہ داران وکارکنان اورمتعلقین نے بھی ان کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج وغم کا اظہار مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کی ہے۔
626 total views