علم و تحقیق کا جذبہ جب ہمارے دلوں میں ماند پڑجاتی ہے تو اس وقت ہماری حالت دگرگوں ہوجاتی ہے اور ہمارے اندرعجب فکری، پراگندگی، ذہنی اضطراب اور دماغی انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ ہم نوپیش آمدہ مسائل کے تعلق سے تحقیق کرنے کے بجائے ایسی سطحیت پر اتر آتے ہیں کہ استہزاء، سب و شتم اور ہتک عزت پر مبنی گفتگو کرنے لگتے ہیں اور اسی کو اپنی علم دانی، ایمانی غیرت اور عقیدے کی حمیت سمجھ لیتے ہیں اور علمی طور پر پختہ ہونے کا بھوت بھی ہمارے اوپر سوار ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہم جہالت کے نچلے درجے میں ہوتے ہیں اور جن اہم مسائل میں ہم کوالجھنا ہی نہیں تھا ان میں اپنی بات کو قول فیصل اور امرواجب کے طور پراسے نافذ کرنے اور منوانے پر مصر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے اسلاف کا حال یہ تھا کہ چھوٹا مسئلہ بھی کسی کو اگردرپیش ہوتا تھا تو پورے اہل مدینہ کو بھی بسااوقات جمع کرلیتے تھے اور ہر ایک آدمی ایک دوسرے کی طرف اس پیش آمدہ مسئلے کو حل کرانے کے لئے احالہ کرتا تھا تاآں کہ وہ قضیہ خود اسی شخص کے پاس پلٹ آتا تھا۔ اس کے برخلاف ہم ذرا اپنے آپ پر غور کریں کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں کہ ہم ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں رائے زنی اور اظہار خیال کو اپناحق سمجھتے ہیں۔آہ !یہ کیسے دور میں ہم جی رہے ہیں۔ جبکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ دوسرے لوگ جن کے یہاں قرآن و حدیث اور مذکورہ منہج سلف کا اہتمام نہیں ہے وہ تو اس گلیارے میں قدرے محتاط ہیں الا یہ کہ ان کا تعصب جاگ اٹھے، مگر ہم ہیں کہ شتر بے مہار اور ہر مسئلے میں مفتیٔ عام بنے پھر رہے ہیں۔اہل حدیث اور سلف کے یہاں اس کا تصور بھی نہیں تھا :أأفتی و مالک فی المدینۃ (مدینے میں امام مالک زندہ ہیں اور میں فتویٰ دوں ، یہ کیسے ممکن ہے۔) کامقولہ کل تک سلفیوں کا شعار اور اصول تھا۔مگر آہ!
ہائے یہ گردش دوراں ہمیں لائی ہے کہاں
بروقت سوشل سائٹس پر غیرمسلموں کی لاشوں کی تدفین، ان کے آخری رسوم اور انتم سنسکار میں ایک مسلمان کی شرکت جائز ہے یا نہیں؟اس تعلق سے ایک فتنہ کھڑا کردیا گیا ہے۔ ہرکس و ناکس اس مسئلے پررائے زنی کررہا ہے اور اپنے طور پر اس کی توجیہ پیش کرنے میں لگا ہوا ہے اور اس سلسلے میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں مخالف فکر رکھنے والے کی شان میں گالی گلوچ کرنے ،اس پر تہمت لگانے جیسی غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں جو بہرحال بہت ہی افسوسناک امر ہے۔ اختلافی مسائل میں گفت و شنید کا حق اہل علم کو رہا ہے اورمخالف موقف رکھنے والوں کے سلسلے میں ان کا یہ ہرگز طریقہ نہیں رہاہے کہ ان کو نیچا دکھایا جائے اور ان کی ذاتیات پر ناروا حملہ کیا جائے۔
حالیہ قضیہ نامرضیہ کی وجہ کچھ میڈیائی مرد میدانوں، تنقید کے متعصب چمپئنوں اور اپنے کچھ حاسدوں اور عاقبت نااندیش متحمس نوواردوں کی بے جا غیرت و حمیت اور حسد ہے جس کے کچھ مخلص و سادہ لوح لوگ بھی اس کے شکار ہیں۔موجودہ کورونا وائرس کی سخت تباہی و مہاماری کے زمانے میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے ایک مختصراً بیان دیا جس میں شرعی، طبی اور حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کی ترغیب کے ساتھ بسااوقات اس کسمپرسی، اضطراری اور حاجت و ضرورت کے زمانے میں بلاتفریق مذہب و ملت خلق خدا کے کام آنے، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور مصیبت کم کرنے ، آفت زدہ بھائیوں کے کام آنے کی ترغیب و تلقین کے ساتھ اس مصیبت کے زمانے میں ان کے انسانی جذبے پر مبنی عمل کو ’’حسب ضرورت ‘‘خوش آئند بتاتے ہوئے کہا:’’۔۔۔۔۔حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنے غیر مذہب بھائیوں کی تجہیز و تکفین اور انتم سنسکار کا کام بھی انجام دے رہے ہیں جو بڑی ہی خوش آئند بات ہے۔‘‘
عام تاثر یہ ہے کہ یہ بیان انتم سنسکار کی حلت و حرمت سے متعلق نہیں تھا بلکہ اس بیان میں امیر محترم نے اس جذبے کی ستائش کی ہے جس جذبے سے سرشار ہوکر بہت سے مسلمانوں نے غیر مسلموں کا تعاون کیا اوراس سے بھی بڑھ کر کچھ مسلمانوں نے اپنے اس عمل کے ذریعہ اپنے برادران وطن کو ایک خوبصورت پیغام دیا کہ ایک مسلمان اپنی شناخت کے ساتھ جیتا بھی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے پڑوسیوں اور سماج کے تئیں اپنے دل میں ہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ بھی رکھتا ہے لیکن کچھ جذباتی صفت نوجوانوں نے امیرمحترم کی بات کو سیاق و سباق اور اصل مدعے سے ہٹاکر غلط انداز سے پیش کردیا جسے بددیانتی اور بات کا بتنگڑ بناناہی کہا جاسکتا ہے اور انتم سنسکار کے لفظی اور تجہیز و تکفین کے مترادف توضیحی لفظ کو ہندو بھائیوں کے تمام رسوم و رواج ، عقیدے، منتر اور جاپ ،اس کی موت سے لے کر چتا میں جلانے تک کے تمام شرکیہ اور ہندوانہ رسم و رواج کا ٹھیکرا اس تحریر کے سر پھوٹنے کی نہایت مجرمانہ و مذموم کوشش کرڈالی۔
ان میں کچھ ایسے عناصر بھی تھے جن کا مقصد فتنہ پروری کے ذریعہ مسلمانوں کو مصائب میں مبتلا کرنا تھا۔ ’’کاکا‘‘ جیسے لوگوں نے ابتداء کی اور اس شمع خانہ سوز کے پروانے مثل مگس اس پر گرنے لگے، لیکن ان کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے کہ وہ شرعی علم نہیں رکھتے یا رکھتے بھی ہیں تو ان کے علم کا محور ’’گوگل‘‘ ہے، یہاں وہاں سےکاپی پیسٹ کرلینے کو ہی علم کا نام دیتے ہیں، لیکن اس کے بعد کچھ ’’اقامت دین‘‘ جیسی خارجی ذہنیت اور پس منظر رکھنے والے لوگوں نے بھی حسبِ روایت امیر محترم کے بیان کو خوب توڑ مروڑ کر اپنے دل میں چھپے حقد و حسد کا مظاہرہ کیا۔پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ہماری جماعت کے بھی کچھ پرجوش مگر عقل و شعورسے عاری سفہاء الاحلام اور حدثاء الاسنان نوجوانوں نے مورچہ سنبھالا اور ہرطرح کی حدیں پار کرتے ہوئے جس اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
’’انتم سنسکار‘‘ جس لفظ کو لے کر ہنگامہ بپا ہے اورجس پر ’’علم و تحقیق‘‘ سے عاری لوگوں نے طوفان بدتمیزی کھڑا کررکھا ہے، اس کے تعلق سے ایک بات عرض کردوں کہ اس کا لغوی معنیٰ آخری اچھا کام ہوتا ہے۔ عرف کی جہاں تک بات ہے تو ہردھرم کے مذہبی رسوم و رواج پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔اگر کوئی مسلمان وفات پاجائے، اس کی نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین کو بھی ہندی کے اخباروں میں ’’انتم سنسکار‘‘ ہی سے تعبیر کیاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کا انتم سنسکار عمل میں آیا۔
حالیہ دنوں میں احمد پٹیل جیسے پختہ نمازی اور کچھ لیڈروں کے بارے میں انتم سنسکارکا لفظ کا اخباروں نے استعمال کیا ہے۔گویا کہ ہمارے ان بھائیوں کی نظر میں ان کو بھی انہی منتروں کے ساتھ مسلمانوں نے ہی جلادیا۔لاحول ولاقوۃ الا اللہ
بریں عقل و دانش بباید گریست
لہذا امیر محترم کی بات سے یہ سمجھنا کہ مولانا نے کافر کی لاش کو آگ لگانے، اس موقع پر منتر پڑھنے اور اس کا جاپ کرنے کا جواز کا فتویٰ دے دیا ہے، سراسر غلط اور بکواس ہے کیونکہ اولاً مولانا نے حلت و حرمت پر کوئی گفتگو نہیں کی ہے اور ثانیاً مولانا نے جس لفظ کا استعمال کیا ہے ، اس کی روشنی میں جلانے وغیرہ کا شاخسانہ کھڑا کرنا انتہائی درجے کی بدیانتی ہے۔
بہرحال، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’بوقت ضرورت‘‘ کیا کسی غیرمسلم کے آخری رسوم ایک مسلمان شخص انجام دے سکتا ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب سے قبل اس امر کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ یہاں بات ضرورت کے پیش نظر کفار کے آخری رسوم میں کسی مسلمان کی شرکت کی ہے،اور بس شوقیہ طور پر یا سیکولرزم کے ثبوت کے لئے یا مذہبی رواداری کا چمپئن بننے کے لئے کفار کے جنازے میں شریک ہونا بہرحال درست اور مناسب نہیں ہے۔ ہاں ضرورت کے تحت کفار کے آخری رسوم و رواج کی انجام دہی میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ احادیث کے ذخیرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ کام بعض موقعوں پر انجام دیا گیا۔چنانچہ بدر کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی نعشوں کو بدر کے کنؤوں میں ڈلوادیا تھا۔متفق علیہ روایت ہے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ 24 سرداران قریش کی نعشوں کے تعلق سے آپ نےحکم دیا تو ان کی نعشوں کو بدر کے ویران کنؤووں میں ڈال دیا گیا۔۔۔ الحدیث(صحیح بخاری3976، صحیح مسلم2875)
اس واقعہ پر غور کریں اور دیکھیں کہ شارع علیہ السلام نے مشرکین کی لاشوں کو یونہی ضائع ہونے کے لئے نہیں چھوڑدیا بلکہ انہیں بدر کے کنؤوں میں ڈلوادیا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ان لاشوں کو مشرکین مکہ کے حوالے کرسکتے تھے یا انہیں بدر کے کھلے میدان اور وسیع جگہ میں پڑا ہوا چھوڑسکتے تھے جہاں ان بدبودار لاشوں کی مزید بے حرمتی ہوتی ،ساتھ ہی اس سے انسانی آبادی کو کسی بیماری اور جراثیم کے لگنے اور بدبو کے لاحق ہونے کا خطرہ نہ تھا لیکن ایسا نہ کرکے آپ نے ان کی لاشوں کو کنویں میں ڈلوادیا بلکہ امیہ بن خلف کے بارے میں آتا ہے کہ اس کی نعش پھول گئی تھی تو اس پر پتھروغیرہ ڈال کر اسے ڈھکوادیا۔(فتح الباری۷/۳۰۲۹ )
یہاں امیر جمعیت نے جس مہاماری کے پیش نظرجس مجبوری، ماحول اور ضرورت کے ہولناک پرآشوب وقت میں یہ بات لکھی ہے، اس میں انسانی ہمدردی کے ساتھ ساتھ انسانی آبادی میں اس طرح کی لاش کو یونہی چھوڑدینے کی صورت میں کون کون سے مضرات و آفات جنم لیں گی ان کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔
نیزعلامۃ التابعین عامربن شراحیل شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حارث بن ابی ربیعہ کی والدہ وفات پاگئیں جو نصرانیہ تھیں تو اس موقع پر صحابہ کرام نےایک جماعت کے ساتھ شرکت کی اور حاضر ہوئے۔(مصنف بن ابی شیبہ،حدیث نمبر11964)
ظاہر بات ہے کہ انہوں نے نصرانی رسوم و رواج کی پابندی اور صلیب کی دہائی نہیں دی ہوگی۔حاشا و کلا۔
اس باب میں علی رضی اللہ عنہ والی جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ان کے والد ابوطالب کی وفات ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ ان کی نعش کو مٹی میں چھپادیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ بحالت کفر وفات پائے ہیں، اس کے بعد بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش کو مٹی میں چھپانے کا حکم دیا۔(مسند احمد ،حدیث نمبر759)
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قریش کے شرکیہ اعمال اور ان کے معبودوں کی دہائی اور دعا کے ساتھ آپ نے نعوذباللہ لاش کو سپردخاک کرنے کا کام کیا۔
اس روایت کے تعلق سے یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اسے علمائے محققین نے ضعیف قرار دیا ہے۔امام نووی نے المجموع۵/۲۸۱میں ضعیف کہا ہے۔ بیہقی رحمہ اللہ کے بقول: علی بن المدینی نے کہا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ابوطالب کی نعش کو مٹی میں چھپادیں، یہ اہل کوفہ سے مروی ہے اور اس کی سند محل نظر ہے۔ اسے اسحق نے ناجیہ سے روایت کیا ہے۔ میرے علم کی حدتک ناجیہ سے ابواسحق کے سوا کسی نے روایت نہیں کی ہے۔
بدر کے مشرکین کے تعلق سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل اور حارث بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کے انتقال کے موقع پر صحابہ کرام کی حاضری سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے تحت کفار و مشرکین اور برادران وطن کے آخری رسوم میں شرکت کی جاسکتی ہے کیونکہ صحابہ کرام نے ایسے امور انجام دیئے ہیں اور خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
ہاں، ایک بات ضرور ہے کہ جہاں ایک طرف شرعی قاعدہ ہے ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ یعنی بربنائے ضرورت ممنوع اور حرام کام بھی مباح کے زمرے میں آجاتے ہیں، وہیں دوسری طرف ایک شرعی قاعدہ یہ بھی ہے ’’الضرورات تقدر بقدرھا‘‘ یعنی ضرورت کے پیش نظر جن حرام امور کو مباح قرار دیا گیا ہے، انہیں بس ضرورت کے بقدر ہی مباح سمجھا جائے گا۔ ضرورت سے زیادہ اس وقتی مباح کام کو انجام دینا درست نہیں ہوگا۔مطلب یہ ہے کہ آپ از راہ ہمدردی اور خیرخواہی تالیف قلب یا بوقت ضرورت کفار و مشرکین کے آخری رسوم میں جو شرکت کررہے ہیں، وہ صرف شرعی حد تک جائز ہوگا، یہ نہیں کہ آپ مشرکین کے مذہبی رسوم کو ادا کرنے لگیں۔ بلکہ بقدر ضرورت آپ صرف ہندو بھائی کی وفات کے موقع پر اس کی لاش کو شمشان گھاٹ تک پہنچادیں،ایمبولینس وغیرہ کا انتظام کردیں، اس کی لاش وغیرہ اٹھانے میں تعاون کردیں۔وغیرہ وغیرہ۔
نیز کفار و مشرکین کے لئے مسلم غرباء کے خالص حق ’’زکوٰۃ‘‘ کو غیر مسلموں کے مابین بھی خرچ کرنے کو مشروع کیا گیا ہے اور اسے آٹھ مصارف زکوٰۃ میں سے بتایا گیا جبکہ دوسری حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ’’فان ھم أطاعوک لذلک فاعلمھم ان اللہ افترض علیہم صدقۃ تطہرہم و تزکیہم فیھا، تؤخذ من أغنیاءھم و ترد الی فقراء ھم ‘‘یعنی زکوٰۃ مسلم غریبوں کا حق ہے لیکن فقہاء کی تشریح کے مطابق کفار و مشرکین کے مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کو کم کرنے، ان کے دل سے مسلم نفرت کو ہلکا کرنے، انہیں اسلام پر آمادہ کرنے کے مقصد سے بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نیز ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں جہاں ہندومسلم سبھی لوگ مل کررہتے ہیں اور ہم مسلمان اقلیت میں ہیں تو اقلیتوں کے لئے شریعت نے بہت ساری رخصتیں عطا کی ہیں۔ہم خود دیکھیں کہ یہاں اپنے اپنے دھرم پر عمل کی اجازت کے ذیل میں شریعت پر عمل کی اجازت کے باوجود بہت سے شرعی حدود معطل ہیں۔اس کے علاوہ بہت ساری حدیثوں پر ہم عمل پیرا نہیں ہوپاتے جیسے حدود و قصاص کا نفاذ اورخاص حالات میں ’’لا تبدؤالیھود ولاالنصاری بالسلام فان لقیتموھم فی طریق فاضطروھم الی اضیقہ‘‘وغیرہ
اب ان مسائل پر کوئی من و عن ہر جگہ عمل کرکے دکھائے ، راستے میں کوئی ہندو ملے تو اس کو کنارے چلنے پر مجبور کرے، پھر مذہبی رواداری وغیرہ جیسی باتوں کا مذاق بنائے جس کو مسلم تنظیمیں ، اس کے مفکرین ،دانشور ،فقہاء اور قلمکار بڑے شد و مد سے اسلام اور مسلمانوں کا امتیازی وصف بتاتے نہیں تھکتے، ا ن کے بارے میں آخر ہمارے یہ بھائی کیا حکم لگائیں گے۔لہذااس تکثیری ماحول میں اس طرح کے اسلام کی روشن تعلیمات اور علماء کے مبنی برحقیقت و مصلحت واضح ہدایات پر لب کشائی کرنے سے پہلے بہت سوچ سمجھ کر ادب و اخلاق کے دائرے میں رہیں ۔یہ دین و ایمان، اخلاق اور موجودہ ناگفتہ بہ اور پرفتن حالات کا تقاضہ ہے۔
زبان و قلم امانت ہیں۔اس کا پاس و لحاظ رکھیں، بلاوجہ اپنی زبان و قلم سے خود اپنا مذاق نہ اڑائیں، دوسروں کی عزت کریں، یہ مسلمہ اقدار میں سے ہے اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں:
لسان العاقل وراء قلبہ و قلب الأحمق وراء لسانہ
از
ابوعدنان سعیدالرحمن بن نورالعین سنابلی
3,234 total views