از قلم۔سالم خورشید
استاذ۔ مرکز السنہ ایکلا
=====================
قارئین کرام۔ 31/ مارچ 2021م مطابق ١٧ شعبان المعظم بروز بدھوار جماعت اہلحدیث کے معروف و مشہور بزرگ عالم دین مولانا عبدالرحمن صاحب بقاء ریاضی رحمه الله ایک طویل علالت کے بعد بقضائے الہی وفات پاگئے۔انالله و انا الیه راجعون اللهم اغفر له وارحمه و عافه واعف عنه، اللهم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خير منها،
محترم شیخ عبدالرحمن صاحب بقاء ریاضی رحمه الله شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی رحمه الله کے داماد، بزرگ عالم دین مولانا فضل الرحمن صاحب مدنی کے ہم زلف، نیز شیخ الحدیث و شیخ الجامعہ شیخ خورشید احمد سلفی جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال کے سمدھی تھے۔ موصوف ان بابصیرت علماء میں سے تھے جن کا وجود ملت اسلامیہ و ضلع روپندہی کے لیے باعث فخر تھا موصوف کتاب و سنت کے حامل انسان تھے مولانا علیہ الرحمہ ہفت روزہ جریدہ ترجمان و ماہنامہ الاسلام دہلی کی کتابت کرتے تھے موصوف باعزت صاحب علموں سے تھے علم کے ساتھ ساتھہ تہذیب، و شائستگی، آداب گفتگو معاملات و تعلقات کا گہوارہ اُن کی ذات تھی شیخ محترم پابند صوم و صلوٰاة و زكوٰاة ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ مہمان نواز تھے ان کے اندر افہام و تفہیم کا ملکہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، خاموش طبع بےتکلف تصنع و بناوٹ سے منزلوں دور تھے موصوف اعلی اخلاق و کردار نیز مدارس و مساجد سے ہمدردی رکھنے والے اور جماعت و جمعیت سے بھت لگاؤ رکھنے والے انسان تھے
اسی طرح جب کبھی ہم برادران یعنی (سالم خورشید، اسامہ خورشید) اُن کے گھر جاتے تو ہمیں حالات حاضرہ کے متعلق مختلف اشعار و مقولے سناتے تھے اور بعض دفعہ اپنی مزاحیہ باتوں سے ہمیں خوب ہنساتے تھے ہمیشہ صوم و صلواة کی ادائیگی پر زور دیتے تھے بیماری کے حالت میں بھی گھر پر بچوں کیساتھ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے اب ان کے بغیر گھر بالکل سنا ہوگیا ہے بقول شاعر
یوں برستی ہیں تصور میں پرانی یادیں
جیسے برسات کی رمجھم میں سماں ہوتا ہے
موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی پھر جامعہ دار الہدی یوسف پور سے کسب فیض کیا، اور آخر میں مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں وہاں کے اہل تقوی و نامور اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، صحیحین کا درس شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی سے لے کر بواسطہ شیخ الکل فی الکل سید میاں نذیر حسین دہلوی کے سلسلہ سے جڑ گئے۔ اس کے بعد آپ کا عقد نکاح شیخ الحدیث صاحب رحمه الله کے دختر محمودہ سے ہوا اس طرح ایک اور شرف حاصل ہوگیا۔مولانا علیہ الرحمہ نے فراغت کے بعد تجارت کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا جس میں الله نے بڑی برکت عطاء فرمائی۔آپ کے پاس علاقہ اور دور دراز کے علماء کرام کی آمد و رفت رہتی تھی جس کا مشاہدہ میرے والد محترم حفظه الله نے بذات خود کیا ہے۔خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری رحمه الله آپ کے بڑے قدر دان تھے وہ بھی آپ کو بھت عزیز رکھتے تھے جب کبھی ضلع روپندیہی سے گزر ہوتا تو آپ کے یہاں قدم رنجاں فرماتے ۔ ایک مرتبہ تو بغرض علاج ہفتہ یا دو ہفتہ تک آپ کے یہاں مہمان رہے۔ مولانا موصوف نے ایک لمبی مدت تک مدرسہ فیض الاسلام پڑریا کی نظامت فرمائی آپ کے عہد میں اچھا خاصا تعمیری کام ہوا۔ آپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ……… کھنگائی میں بازار قائم ہوگیا تو آپ نے بھی وہیں جگہ خرید کر مکان و دوکان بنایا اور کپڑے کی تجارت کرنے لگے لیکن اسی پر بس نہیں بلکہ ایک وسیع و عریض زمین خرید کر اس پر شاندار جامع مسجد تعمیر کرائی جس میں باقاعدہ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہونے لگا اور مسجد سے متصل مدرسہ ضیاء العلوم لتحفیظ القران الكريم قائم کر دیا۔ حفظ کا انتظام تو نہ ہوسکا البتہ عصری و دینی تعلیم و تربیت کا سلسلہ کئ برسوں تک جاری و ساری رہا علاوہ ازیں جامع مسجد سے ملحق نسواں مسجد کی تعمیر بھی کرائی۔ لمبنی نیپال کا علاقہ جو بدھسٹوں کی نرغے میں ہے اس میں آپ نے اسلام اور دعوت سلفیت کے تحفظ و فروغ میں بڑی کاوش فرمائی۔ایک اچھے خوش نویس و کاتب تھے "مشکاة المصابيح” کا اردو ترجمہ "انوار المصابیح”( مترجم شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی) آپ ہی کے کتابت کے ذریعے معرض شہود میں آیا۔ اپنے دور نظامت کے زمانے میں جب کوئی مدرس نہیں ہوتا تھا تو آپ ان کی جگہ پُر فرمایا کرتے تھے۔اِدھر عرصہ دس پندرہ سالوں سے آپ دہلی کے ابوالفضل انکلیو ٹھوکر نمبر 4 میں اپنے ذاتی مکان میں مقیم تھے اور کئ سالوں سے بیمار چل رہے تھے بلا آخر کم و بیش ٩٠ سال کی عمر ہولی فیملی اسپتال دہلی میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔مولانا نے اپنی زندگی میں ہی اپنے نماز جنازہ کے لیے والد محترم شیخ خورشید احمد سلفی حفظه الله کو وصیت کی تھی مگر وہ لمبی مسافت ہونے کے ناطے پہونچنے سے قاصر رہے۔ اور اسی دن دہلی کے شاہین باغ قبرستان میں شام 6 بجے تدفین عمل میں آئی۔
نماز جنازہ ابوالکلام آزاد اسلامک اویکینگ سینٹر کے جنرل سیکریٹری مولانا ابو صادق عاشق علی اثری حفظه الله نے پڑھائی جس میں عوام خواص کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جس میں باالخصوص مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا ازھرعلی مدنی، جامعہ اسلامیہ سنابل کے صدر محترم شیخ محمد رحمانی، شیخ وسیم ریاضی، شیخ عبدالبر مدنی، شیخ فضل الرحمن ندوی، شیخ وسیم سنابلی مدنی، شیخ نثار احمد سنابلی مدنی، شیخ شکیل احمد سنابلی،شیخ عبدالحکیم سلفی، شیخ عبد التواب مدنی، مفتی شیخ جمیل مدنی، مدرسہ ریاض العلوم کے ناظم اعلی مولانا عامر وغیرہم قابل ذکر ہیں۔
مولانا محترم کے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔
مولانا محترم کی جدائی ہمارے گھرانے کے لیے بالخصوص والد محترم شیخ خورشید احمد سلفی، برادر کبیر شیخ محمد خورشید سنابلی ریاضی و شیخ اسامہ خورشید سنابلی، و شیخ نسیم احمد فیضی، کے لیے انتہائی رنج و غم اور تکلیف دہ ہے دعا ہیکہ الله تعالی مولانا محترم کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور بتقضائے بشریت جو اُن سے غلطیاں ہوئی ہیں اُنھیں معاف فرمائے نیز جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے آمین۔
2,977 total views