حافظ شبیر احمد مدنی
یہ سطریں لکھتے وقت آنکھیں اشکبار ،دل مغموم اور قلم لرزاں ہے ان العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا انا بفراقک یا ابی لمحزونون 18 نومبر ۲۰۲۰ کا دن ہمارے لیے بڑی آزمائش ،غم و اندوہ اور مصیبت بھرا دن تھا کیونکہ اس دن گھر کا مضبوط سائبان، ایک عظیم سر پرست ، جہاندیدہ و کامیاب مربی ، دور رس نگاہیں رکھنے والا نگراں ، اللہ کے بعد گھر والوں کا سہارا اور ذمہ دار والد صاحب ہمیں سوگوار چھوڑ کر رخصت ہوگیے، ابھی والدہ صاحبہ کی جدائی کا داغ مٹا بھی نہیں تھا کہ والد صاحب کی اچانک سانحہ ارتحال سے غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ گیا یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دنیا فانی ہے اور اس کی تمام اشیاء کو فنا اور زوال کا سامنا کرنا ہے ، بقا و دوام صرف اللہ کو حاصل ہے ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن دنیاوی زندگی چھوڑ کر اخروی و دائمی زندگی کی طرف کوچ کرنا ہے لیکن بعض اموات اس قدر غیر متوقع ،اچانک ہوتی ہیں کہ دل فورا یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ یہ خبر صحیح ہے والد صاحب کی وفات کی خبر بھی بجلی بن کر گری تھوڑی دیر سکتہ کے عالم میں رہا ، ان کے بارے میں یہ کھٹکا بھی دل میں نہ گزرا تھا کہ اس قدر جلد ہم سے رخصت ہوجائیں گے ، جس نے بھی سنا ہکا بکا رہ گیا، کانوں پر یقین نہیں آیا کسے خبر تھی کہ بے آہٹ پیام اجل آجائے گا اور وہ اچانک ہم سے جدا ہوجائیں گے اور گھر والوں عزیز و اقارب کو سوگوار چھوڑ جائیں گے ،ابھی شام ہی کو ویڈیو کالنک کے ذریعہ گفتگو ہوئی تھی ،صبح لکھنؤ جانے کے پروگرام سے آگاہ کیا،کسے خبر تھی کہ وہ آخری بات ثابت ہوگی ،پوری رات عجیب وساوس و خدشات کا شکار رہا،صبح فجر کے بعد ہی فون لگانا شروع کیا لیکن نیٹ ورک خراب ہونے کی وجہ سے بات نہ ہوسکی جس سے بے کلی ، اضطراب اور بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا،برادر عزیز حافظ نسیم سے رابطہ کیا ، انہوں نے موبائیل کے ذریعہ فون کرکے والد صاحب کی خیریت دریافت کی اور یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ اچانک والد صاحب کی حالت تشویشناک ہوگئی ہے اور لکھنؤ لے جانے کا پروگرام بھی کینسل کردیا گیا ہے ، ابھی بہ مشکل دو منٹ ہوئے تھے کہ انہوں نے روتے ہوئے خبر دی کہ والد صاحب اس دنیا میں نہیں رہے ،یہ سب اس طرح اچانک ہوگیا کہ کبھی اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا، صبح اٹھ کر معمول کے مطابق صبح کی نماز پڑھی ذکر و اذکار میں مشغول رہے، ہلکا پھلکا ناشتہ کیا ، گاڑی آنے کے بارے میں بار بار دریافت کر رہے تھے کہ آئی یا نہیں ،پھر گاڑی آئی اس پر بٹھایا گیا کہ اتنے میں وقت موعود آپہنچا اچانک آنکھ بند ہوئی اور روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی، یوں عزیز و اقارب کو روتا بلکتا چھوڑ گئے۔ تقریبا چھ سال کا منظر سامنے آگیا بالکل اسی طرح والدہ صاحبہ کے ساتھ بھی ہوا تھا ، بات چیت کرتے کرتے اچانک داغ مفارقت دے گئی تھیں ،اللہ ان دونوں کو غریق رحمت کرے، انہیں اعلی علیین میں جگہ دے، ان کی بشری لغزشوں کو در گزر فرمائے ، ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی درجات کو قبول فرمائے ۔
والد صاحب کے رخصت ہونے سے پورا گھر بلکہ ایک طرح سے ہماری دنیا ہی ویران ہوگئی ، گھر کی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ خود ہی اٹھائے ہوئے تھے ، ان کی موجودگی کی وجہ سے ہم بھائی یہاں سعودیہ میں بالکل مطمئن تھے ، گھر میں کوئی بھی مسئلہ ہو، بچوں کی تعلیم و تربیت کی بات ہو یا شادی بیاہ کا معاملہ، مکانات کی تعمیر کی بات ہو یا زمین و جائداد کی خریداری کی ،جامعات میں بچوں کے داخلے کی کوشش ہو یا کھیتی کا شغل ہو، سرکاری کاغذات بنوانے ہوں یا بینک کا کوئی کام ہو ، گھر میں ولادت کا مسئلہ ہو یا عقیقہ کی تقریب ہو سارا کام خوشی خوشی بحسن و خوبی انجام دیتے تھے، آج ان کے جانے کے بعد احساس ہورہا ہے کہ کتنی بڑی دولت ، کتنی عظیم نعمت اور کتنا گرانمایہ سرمایےسے ہم محروم ہوگئے ، حقیقت یہ ہے عمر کتنی بھی بڑھ جائے والدین کی موجودگی میں لڑکا لڑکا ہی رہتا ہے ، اپنی عمر کا احساس تو والدین کے سایہ سے محرومی کے بعد ہوتا ہے ۔
یہ میری بد نصیبی ہے کہ شدید خواہش کے باوجود والدین کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا ، والدہ کی وفات کے موقع پر سفر سے متعلق کارروائی کی تکمیل میں تاخیر ہوئی اور تدفین کے دوسرے دن میں اور برادر عزیز حافظ نسیم سلمہ پہنچے اور والد کی وفات کے موقع پر کرونا کے سبب فضائی خدمات معطل رہنے کی وجہ سے حسرت وتمنا کے باوجود نہ پہنچ سکا ذیل میں ان کی زندگی کا مختصر خاکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔
نام و نسب: والد صاحب کا نام نذیر احمد بن عظیم اللہ بن گل محمد بن پٹھان بابا۔
خاندان و پیدائش : آپ کا تعلق ایک محنت کش غریب گھرانے سے تھا ،دادا کپڑا فروشی کیا کرتے تھے ،چھوٹا سا کچا مکان تھا اسی میں تقریبا ۱۹۴۰ میں آپ کی ولادت ہوئی ، عسرت و تنگدستی کے ماحول میں پر ورش پائی۔
تعلیم اور عملی زندگی کا آغاز : گاؤں کی پرانی مسجد کے پاس ایک چھوٹا سا مدرسہ تھا وہیں قرآن اور ابتدائی کتابیں پڑھیں ۱۹۵۱ میں کچھ روز میاں عبد الرحیم کے پاس بھی پڑھا پھر تعلیم کا سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا کیونکہ والد صاحب ۱۹۵۳ سایہ پدری سے محروم ہوگئے، پدر بزرگوار کا سایہ اٹھ جانے کے بعد کٹھن حالات کا سامنا کیا ، گھر میں عسرت و تنگی پہلے سے تھی دادا کے انتقال کے بعد تو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑگئے چنانچہ حالات سے مجبور ہوکر اپنے چچا کے یہاں محض دو ٹائم کھانے پرتقریبا ڈیڑھ سال ۱۹۵۵ تک ان کے بیلوں کے لیے گھاس لانے اور کھلانے کا کام کیا پھر ۱۹۵۶ میں پانچ روپیہ ماہانہ پر پانچ ماہ تک کام کیا اس کے بعد ۱۹۵۷ تک محنت و مزدوری کی پھر سلائی کا کام سیکھنا شروع کیا اور اس سلسلے میں قادرآباد میں اپنے پھوپھی زاد بھائیوں کے یہاں ۱۹۵۷ سے ۱۹۵۹ تک قیام کرکے سلائی کا کام سیکھا ۔
مختصر حالات زندگی: والد صاحب نے ۱۹۶۰ سے گھر پر سلائی کا کام شروع کیا وہ ماہر خیاط تھے کوٹ ، پتلون، شیروانی، صدری، برقع اور جملہ قسم کے مردانہ و زنانہ لباس سلنے میں ماہر تھے بالخصوص کرتا بہت شاندار سلتے تھے، ان کے ہاتھ کا سلا ہوا کرتا جو بھی دیکھتا تعریف کیے بغیر نہ رہتا خصوصا مدارس و جامعات میں ان کے ہاتھ کے سلے ہوئے کرتے داد و تحسین کی نظر سے دیکھے جاتے اور خوش لباس لوگ ان کے ہاتھ سے سلانے کے لیے دور دراز سے آیا کرتے،ان کی اس مہارت کی وجہ سے گاؤں کے سیکڑوں لڑکوں سے سلائی کا ہنر سیکھا اور ملک و بیرون ملک روزگار سے وابستہ ہیں۔
والد صاحب کی زندگی جہد مسلسل ، عسرت و تنگی ، محنت جفا کشی اور امتحان و آزمائش سے بھر پور تھی، میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں ہمیشہ جان توڑ محنت کرتے دیکھا ، کھیتی کرتے، اور راتوں کو جاگ جاگ کر سلائی کرتے، گاہک کے کپڑے نہ ہونے پر رضائیاں وغیرہ سلا کرتے پھر رفتہ رفتہ سلائی کے ساتھ ساتھ تجارت کی غرض سے کانپور ، خلیل آباد اور بمبئی کا بھی سفر کرتے رہے میرے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہونے تک انہوں نے بڑی محنت کی، والد صاحب کی پرورش عسرت و تنگی میں ہوئی تھی لیکن میرے سن شعور کو پہنچنے تک ان کی بے انتہا جد و جہد اور عمل پیہم سےگھر کی حالت قدرے بہتر ہوگئی تھی اور متوسط گھرانوں میں شمار ہونے لگا تھا یہی وجہ ہے کہ کثیر العیال ہونے ، بچوں کی تعلیم و تربیت اور شادی بیاہ کا بار تنہا ان کے کندھوں پر ہونے کے باوجود ایک متوسط حیثیت کا پختہ مکان میرے دور طالب علمی ہی میں بنوا چکے تھے اور آہستہ آہستہ رقم پس انداز کرکےبہت سارے کھیت بھی خریدچکے تھے ۔
قوت حافظہ: والد صاحب بچپن ہی سے بلا کے ذہین تھےبچپن کی یادیں ان کے حافظہ میں محفوظ تھیں ۱۹۵۲، ۱۹۵۳ میں گاؤں میں دو بڑے اجلاس ہوئے تھے جن میں اس وقت کے جماعت کے تمام اجلہ علماء کرام تشریف لائے تھے ان میں شرکت کرنے والے علماء کرام کے نام ابھی تک انہیں یاد تھے، اسی طرح نوگڑھ کے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی بہت سی باتیں ان کے حافظہ میں موجود تھیں ، کس محفل میں کس نے تلاوت کی ؟ کون درس قرآن دیتے تھے ؟ کون درس حدیث دیا کرتے کس کی تقریر کو لوگ زیادہ پسند کرتے اکثر ہم لوگوں سے بیان کیا کرتے، مولانا محمد حسین صاحب میرٹھی سے بہت متاثر تھے ان کی بہت تعریفیں کیا کرتے تھے ، اسی طرح ساٹھ ستر سالوں کے درمیاں کون کون سے عالم کن مواقع پر گاؤں میں تشریف لائے ،کب کب گاؤں میں اجلاس ہوئے مشہور علماء کرام میں سے کون کون شریک ہوئے ساری تفصیلات انہیں ازبر تھیں
صفات: ،بڑے متحرک و فعال تھے ان میں سستی کاہلی لاپرواہی اور غفلت نام کی کوئی چیز نہ تھی پیرانہ سالی ، بیماری اور کمزوری کے باوجود چار گھروں کی دیکھ بھال ، ان کا انتظام و انصرام ، گاؤں کے ادارے کی ترقی و فروغ کے لیے سعی پیہم و جہد مسلسل ،مرکز ہادی اعظم کی سرپرستی اور آبیاری کے لیے شبانہ روز مساعی اور کھیتی کی مشغولیات میں آخری وقت تک کوئی فرق نہیں آیا وہ ہمیشہ جوانوں سے زیادہ تازہ دم اور سرگرم رہتے تھے ان کی زندگی کے بہت سے سبق آموز واقعات ذہن و دماغ پر نقش ہیں ،
بچوں کی پرورش :والد صاحب بچوں سے بے انتہا محبت کرتےتھے خصوصا مجھ سے بہت انس و لگاؤ تھا اس لیے کہ ان کی اولاد میں سب سے بڑا تھا اور مجھ سے پہلے ان کے تین بچے اللہ کو پیارے ہوچکے تھے ، دل کے غنی تھے ، اپنی بساط سے بڑھ کر ہم پر خرچ کرتے،اچھے سے اچھا کھلانے پہنانے کوشش کرتے ،دوران طالب علمی ضرورت سے زیادہ جیب خرچ دینے کی کوشش کرتے تاکہ اگر کبھی بیماری وغیرہ لاحق ہو تو کوئی دقت نہ پیش آئے، افسوس طویل عرصے سے باہر رہنے کی وجہ سے والدین کی خاطر خواہ خدمت کی سعادت نہیں مل سکی اللہ ہماری ان کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔
مثالی تعلیم و تربیت: والد صاحب اولاد کی تربیت کے سلسلے میں بہت حساس تھے ، ان کی تربیت کا انداز نرالا تھا ،اولاد کو غلط صحبت سے دور رکھتے، نماز کے سلسلے میں بڑی سختی کرتے، فجر کی اذان سے قبل ہی بیدار ہوجاتے ، گھر میں سب کوبیدار کرتے ، سردیوں میں ہیٹر لگا کر گرم پانی کا انتظام کرتے اور بچوں کو جماعت سے نماز کی سختی سے تاکید کرتے اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ مسجد میں بھی نگاہ دوڑاتے اگر کوئی بچہ نظر نہیں آتا اس سے باز پرس کرتے، صغر سنی ہی سے بچیوں کو سر پر دوپٹہ نہ ہونے پر ٹوکتے، بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے منع کرتے گھر کی خواتین کوبلا اشد ضرورت اور گھر کے کسی مرد کو ہمراہ لیے بغیربازار جانے کی قطعا اجازت نہیں تھی والد صاحب خود تو حالات کی وجہ سے پڑھ نہ سکے لیکن اپنی اولاد و احفاد کو دینی تعلیم دلانے کے بڑے حریص تھے ، وہ اس سلسلے میں نہ تو ماحول سے متاثر ہوئے اور نہ کسی کی بات ، طعن و تشنیع کی پرواہ کی موجودہ دور میں ہمارےگاؤں میں علم دین کی طرف رغبت نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ قدرے ناقدری و بےزاری پائی جاتی ہے،ہر شخص دنیا داری میں مگن ہے ، آج یا تو ساری توجہ انگلش میڈیم اسکولوں پر دی جارہی ہےیا پھر دنیاوی کاروبار میں لگادیتے ہیں لیکن والد ین اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کے خواب و خیال میں کبھی یہ چیزیں نہیں آئیں، ا ن کی ہمیشہ یہی کوشش و تمنا رہی کہ ان کے سارے بیٹے و پوتے حافظ قرآن اور علم دین کے زیور سے آراستہ ہو کر دین کے خادم و داعی بنیں ، کبر سنی کے باوجود پوتوں اور پوتیوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، ا س سبب سے انہیں بسا اوقات لوگوں کے طعنے سننے پڑے مجھےیاد ہے ایک بار مجھے چھٹی گزار کر جامعہ سلفیہ جانا تھا ، گھر میں بر وقت پیسے نہیں تھے ، والد کی سلائی کی کچھ رقم ایک صاحب کے ذمہ تھی جو ہمارے قریبی عزیز تھے ، اسی رقم کا تقاضا کرنے کے لیے والد صاحب ان کے پاس گئے اور مقصد بیان کیا کہ شبیر کو پڑھنے کے لیے جامعہ جانا ہے ان کے خرچ کے لیے دینے کے لیے بر وقت انتظام نہیں ہو سکا ہےآپ حساب دے دیں تو الجھن ختم ہوجائے ، انہوں نے بڑے حقارت بھرے انداز میں کہا: کیا اپنے بیٹے کو ملا بنارہے ہو ، پڑھنے کے بعد مانگے کھا ئیں گے اور معمولی تنخواہ پائیں گے کمائی اور عزت تو فیکٹری (میل ) میں کام کرنے میں ہے یہ سن کر والد صاحب کے دل کو کاری زخم لگا جس کی ٹیس ہمیشہ محسوس کرتے رہے اور موقع بہ موقع اس کا تذکرہ بھی کرتے رہے ، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہی سال کے بعد ان کی فیکٹری پر تالا لگ گیا اور وہ خود اور ان کے بیٹے بھتیجے بے روزگار ہوگئے ،اور اللہ نے ان کے صبر کا یہ صلہ دیا اور ان کی کوششیں اور دعائیں اس حد تک رنگ لائیں کہ فی الوقت ا للہ کے فضل سے ان کے گھر میں دس حفاظ ہوچکے ہیں اور کچھ تو عالم بن چکے ہیں اور کچھ ابھی علم دین حاصل کر رہے ہیں اللہ انہیں عالم باعمل اور دین کا داعی بنائے تاکہ والدین کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہوں ۔اس واقعہ کوعبرت و نصیحت کے لیے بیان کیا ہوں کسی کی دل آزاری ،دل شکنی، تنقیص اور تشنیع مقصود نہیں۔
ان کی تربیت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ جب ہم چھوٹے تھے تو روزانہ رات کو سونے سے پہلے دین کی کوئی نہ کوئی کتاب اکثر و بیشتر پڑھتے جس کی وجہ سے بچپن سے ہی دین کی بہت سی بنیادی باتیں ذہن و دماغ میں راسخ ہوچکی تھیں پھر جب بڑے ہوگئے تو جب بھی گھر پر آتے تو بلا ناغہ عشاء کے بعد والدین کے ساتھ سب بھائی بیٹھتے کچھ گپ شپ ہوتی پھر تعلیم ، جامعات اور اساتذہ وغیرہ کی باتوں کے ساتھ دینی موضوعات زیر بحث آتے ، والدہ صاحبہ کی وفات تک اس معمول میں کبھی فرق نہیں آیا۔والد صاحب موقع بہ موقع اپنے بیٹوں اور پوتوں کو بٹھا کر سمجھاتے ،اپنی عسرت زدہ زندگی ،تنگدستی اور جفاکشی کا حوالہ دے کر رقت بھرے انداز میں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر کرنے ، ان پر قول و عمل سے اللہ کا شکریہ ادا کرنے ، محنت سے علم حاصل کرنے اور وقت کی قدر و قیمت سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے، ان کے دلوں میں یہ بات جاگزیں کرتے کی کوشش کرتے کہ کسی کے حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اگر محنت سے کام لوگے تو ہمیشہ خوش حال رہو گے۔
جیسا کہ میں نے یہ تذکرہ کیا ہے کہ بڑا ہونے کی وجہ سے والدین مجھ پر جان چھڑکتے تھے لیکن ہمیشہ اس بات کا خاص خیال رکھا کہ لاڈ پیار بگڑنے کا سبب نہ بنے پائے یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے بارے میں بہت سخت تھے جس وقت میں شعبہ حفظ میں داخل ہوا تو اس وقت میری عمر بمشکل دس سال رہی ہوگی لیکن یہ سوچ کر کہ مدرسہ میں اساتذہ کی نگرانی میں دوسرے طلبہ کے ساتھ رات میں اور صبح کو محنت سے اچھی پڑھائی کروں گا مجھے مدرسے میں رات گزارنے کے لیے بھیج دیتے تھے ، ایک بات اور جو اس وقت کم عقلی اور ناسمجھی کی وجہ سے کوفت کا باعث تھی حالانکہ اس میں میرا کتنا فائدہ تھا اس کا احساس مجھے اب ہورہا ہے وہ یہ کہ والد صاحب چھٹیوں میں بھی صبح و شام بلا ناغہ پڑھنے کے لیے مسجد بھیج دیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں کوتاہی کو کبھی برداشت نہیں کرتے تھے بلکہ چچا محترم جناب حافظ و مولانا عبد اللطیف اثری صاحب کے ذریعہ ایک مقدار متعین کردیتے تھےکہ چھٹیوں میں اتنے صفحات یاد کرکے سنانا ہے لہذا جب مسجد میں اکیلے بیٹھ کر پڑھتا تو اپنی مظلومیت پر رونا آتا لیکن اس کا پھل اب مل رہا ہے اللہ والدین کو ان کی کوششوں کا بہترین صلہ دے اور ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ والد صاحب تعلیم کے سلسلے میں کس قدر حریص تھے ۔
والد صاحب تربیت میں بہت دور رس نگاہ رکھتے تھے ، میری دور طالب علمی میں گاؤں والوں کا رجحان سلائی کی طرف زیادہ تھا ، مکتب کی تعلیم کے بعد اکثر لوگ اپنے بچوں کو سلائی سکھانے کے لیے بھیج دیتےاس لیے والد صاحب کبھی مجھے کچھ سلنے کے لیے مشین پر بیٹھنے نہیں دیتے کہ کہیں سلائی کی طرف رجحان نہ ہوجائے اور علم سے بے رغبتی ہو ، تعلیم و تربیت کے تعلق سے بہت سی یادیں والد صاحب سے وابسطہ ہیں جو اس وقت ناسمجھی کی وجہ سے ناگوار گزرتی تھیں لیکن اس کے دور رس اثرات و نتائج سامنے آئے ۔
والد صاحب حاضری پر بہت زور دیتے ، گھر میں کوئی تقریب ہی کیوں نہ ہو کسی چھوٹے سے چھوٹے بچے کو بھی غیر حاضری کی اجازت نہیں دیتےیہی وجہ ہے کہ اکثر گھر کے بچے حاضری میں انعام حاصل کرتے ، میں نے خود تین سال گاؤں میں عربی تعلیم حاصل کی ،تینوں سال حاضری میں پہلی پوزیشن حاصل کی، اسی طرح جب بھی چھٹی میں گھر آتا تو جامعہ شروع ہونے سے ایک دن قبل ہی جامعہ بھیج دیتے اور بادل نخواستہ جانا پڑتایہی وجہ ہے کہ اپنے و غیر ہر کوئی تعلیم و تربیت میں ان کوششوں کے معترف ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
امتحان و آزمائش : والد صاحب کو زندگی میں بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ،بچپن میں ہی شفقت پدری سے محروم ہوگئے، پدر بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا والد کی وفات کے غم کے علاوہ آٹھ بچوں کے رخصت ہونے کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا ، ایک بار مال خریدنے کانپور گئے مال خرید کر دو رکشوں پر لدواکر ایک رکشے پر خود بیٹھے اور دوسرے رکشہ والے کو ساتھ رہنے کی تاکید کی لیکن کچھ دیر تک تو وہ رکشا والا ساتھ رہا پھر بھیڑ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر رفو چکر ہوگیا اس طرح ایک خطیر رقم سے ہاتھ دھونا پڑا ،ایک بار کرانے کی دوکان میں چوری ہوگئی اور چور دوکان کا بیشتر سامان چوری کرکے لے گئے اور والد کو عظیم خسارہ ہوا ، نیز ایک مرتبہ گاؤں میں آگ لگی جس کی زد میں گاؤں کے بہت سے گھر آئے انہیں میں ہمارا گھر بھی تھا ، بڑی مشکل سے گھر کے ساز و سامان کی حفاظت ہوپائی ، دو بار مدرسے کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا ، والدہ صاحبہ گر کر بیمار ہوئیں مہینوں علاج کرایا ،سر کا آپریشن بھی کرانا پڑا ،خطیر رقم بھی خرچ ہوئے لیکن جانبر نہ ہوسکیں اور تقریبا چھ سال قبل داغ مفارقت دے گئیں۔
اخلاق و عادات:والد محترم دین دار ، عالی کردار ، خلیق ، ملنسار ،جفاکش ،منکسر المزاج ،صابر و قانع ، مہمان نواز فرض شناس اور غریب پرور تھے صلاۃ تہجد اور آہ سحر گاہی کے عادی تھے ، علم و علماء کے قدر دان تھے ، جو بھی ایک بار ملا ہمیشہ کے لیے گر ویدہ ہوگیا، حتی کہ کسی کو مزدوری کے لیے بھی رکھتے تو اس کا حد درجہ خیال رکھتے ،اپنی مفلسی کی زندگی یاد کرکے اس سے کے ساتھ نرمی ، اپنائیت اور محبت سے پیش آتے جس سے بعض کم ظرف لوگ ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ، بڑھاپے میں بھی فعال اور متحرک تھے، ان کا دل خدمت خلق اور خدمت دین کے جذبے سے سرشار تھا ، والد صاحب کے اندر احسان شناسی ،وفاداری اور خلوص کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا ،کوئی بھی جو ان کے ساتھ معمولی بھی بھلائی کرتا تو اسے ہمیشہ یاد رکھتے اور اس کا بہترین بدلہ دینے کی کوشش کرتے، اس کی سب سے عمدہ مثال یہ ہے جس کا مشاہدہ سبھی نے کیا ہے کہ آپ کے وہ پھوپھی زاد بھائی جنہوں نے آپ کو سلائی کا فن سکھایا تھا ان کی ساری زندگی بڑی قدر و عزت کی ،بلکہ ان میں سے ایک کو جب آخری وقت میں برے حالات سے گزرنا پڑا ، اپنے بے گانہ ہوگئے حتی کہ ان کی اپنی اولاد نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو والد صاحب نے ان کی زندگی کی آخری سانس تک انہیں گھر کے بزرگ کی طرح اپنے گھر رکھا ، ہر طرح ان کی خدمت کی، اور شاگردی ، قرابت داری اور احسان کا حق ادا کردیا۔
جود و سخا: والد محترم غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور پریشان لوگوں کا بہت خیال رکھتے،کسی سوالی و ضرورت مند کو کبھی خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے وہ کس کس کی کس انداز میں مدد فرماتے تھے کسی کو خبر نہیں ہوتی ، خاص طور سے دینی اداروں کی حتی الامکان تعاون فرماتے۔
جامعہ محمدیہ سے شغف:جامعہ سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا ۱۹۹۵ سے لے کر ۲۰۰۶ تک اس کے خازن رہے ، جامعہ کے امور میں گہری دلچسپی لیتے تھے جو بھی بیرونی اساتذہ جامعہ میں آتے ان سے خصوصی راہ و رسم پیدا کرلیتے اور بحسن و خوبی اسے نبھانے کی کوشش کرتے ،ان کے گاؤں سے چلے جانے کے بعد ان کی باتیں اکثر کرتے رہتے بالخصوص مولانا محمد حنیف رحمانی رحمہ اللہ سابق استاذ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر ،مولانا محمد یحیی فیضی سابق مدرس جامعہ رحمانیہ بنارس ،مولانا سمیع اللہ سلفی سابق سفیر جامعہ سلفیہ بنارس ڈاکٹر اقبال احمد نملی استاذ جامعہ محمدیہ مالیگاؤں استاذ محترم مولانا شفیق الرحمن فیضی سابق استاذ معہد التعلیم دہلی اور شیخ زبیر احمد مدنی ناظم اعلی ضلعی جمعیت بلرام پور وغیرھم قابل ذکر ہیں عم محترم حافظ و مولانا عبداللطیف صاحب اثری حفظہ اللہ استاذ جامعہ عالیہ کو بالکل سگے بھائی کی طرح سمجھتے تھے ۔
طلبہ کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے ان کی خدمت کو باعث سعادت سمجھتے شاید کوئی طالب علم ہو جس نےگاؤں میں تعلیم حاصل کی ہو اور وہ والد صاحب سے متعارف نہ ہو نیز متاثر اور مانوس نہ رہا ہو قابل ذکر بات یہ ہے کہ طلبہ کی حمایت و ہمدردی میں اور مدرسہ کی خاطر دو بار انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا تھا اللہ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔
محمدیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی کا قیام : جب چند لوگوں نے جامعہ محمدیہ کو اپنی ذاتی ملکیت اورایک طرح سے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر تمام اصول و دستور کو بالائے طاق رکھ دیا ، خفیہ طور پر اہل بستی کو اعتماد میں لیے بغیر اسے ایڈ کرواکر اپنے عزیز و اقارب کو یا رشوت میں خطیر رقم لے کر نا اہل ،بد عقیدہ او ربدعمل اساتذہ کی تقرری کرلی، تجرکار مدرسین جو ایک عرصے سے تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ان کو بیک جنبش قلم باہر کا راستہ دکھادیا،تعلیم کا معیار انتہائی گرگیا ، عربی میں طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگئی، اصلاح کی کوشش کے باوجود اسے قبول نہیں کیا گیا تو ایسے نازک حالات میں گاؤں کے غیرت مند و باشعور لوگوں نے جنگ و جدال ، لڑائی جھگڑے سے گریز کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں محمدیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے نام سے ادارہ قائم کیا اوروالد صاحب کو اتفاق رائے سے اس کا صدر منتخب کیا گیا چونکہ گاؤں والوں کے دل کی آواز تھی اس لیے اکثریت نے ان کا ساتھ دیا اور دے رہے ہیں والد صاحب قیام کے وقت سے لے کر اپنے آخری وقت تک اپنے قلب و جگر کا تیل جلا جلا کر ادارے کے عروج و ارتقاء کے لیے ہمہ وقت انتھک محنت کرتےرہے اور بوقت ضرورت خطیر رقم اپنی جیب خاص سے پیش کرتے رہے چونکہ تمام عمارتوں پر پرانے مدرسے والے تسلط جمائے ہوئے ہیں اورادارے کے لیے کسی بلڈنگ کا بندو بست نہیں ہوسکا اس لیے مختلف لوگوں نے عارضی طور پر طلبہ و طالبات کے پڑھنے کے لیے اپنے مکانات دے دیے والد صاحب نے بھی اپنے دو مکانات پیش کر دیے بلکہ جب تک معلمات کی رہائش کا مستقل انتظام نہیں ہوسکا تھا تقریبا دو سال تک ان کے قیام و طعاماور دیگر ضروریات کی مکمل ذمہ داری اپنے سر اٹھائے ہوئے تھے اور اپنی بیٹیوں سے زیادہ ان کا خیال رکھتے تھے۔ادارہ کے کس قدر خیر خواہ تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ رمضان میں اپنے بیٹوں سے خاص طور پر ادارے کے تعاون پر زور دیتے، اس سال لاک ڈاون کی وجہ سے گھر کے افراد عیدین میں عید گاہ نہیں جا سکے تھے تو گھر میں نماز پڑھنے والوں سے باقاعدہ چندہ کیا ،حقیقت یہ ہے کہ ان کے رخصت ہونے سے کلیۃ البنات المحمدیہ ،محمدیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی اور تحفیظ القرآن ایک سچے ہمدرد ، فعال ، متحرک ، بے لوث خادم ، بہی خواہ اور سرپرست سے محروم ہوگئے اللہ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے، حقیقت یہ ہے کہ ان کی یادیں برسوں گھر والوں، متعلقین اور رفقاء کو تڑپاتی رہیں گی۔
اہل علم سے وابستگی : علماء نوازی ،علم دوستی جماعت و جامعہ کی بہی خواہی و ہمدردی آپ کے رگ و ریشے میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی یہی وجہ ہے کہ مختلف مواقع پر ان کے غریب خانے کو متعدد علماء کرام نے اپنے قدوم میمنت سےرونق بخشی ان میں سے چند علمائے کرام کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں؛(۱) مولانا عبدالمالک نیر رحمانی رحمہ اللہ (۲)مولانا زین اللہ رحمانی طیب پوری رحمہ اللہ (۳)مولانا عبد اللہ سعیدی ہرہٹہ رحمہ اللہ (۴)مولانا عبد الرحمن مبارکپوری حفظہ اللہ (۵) ڈاکٹر عبدالعزیز مبارکپوری حفظہ اللہ (۶)مولانا مظہر احسن ازہری حفظہ اللہ (۷)مولانا عبد الواحد مدنی ڈومریا گنج حفظہ اللہ (۸)مولانا اصغر علی امام مھدی سلفی امیر جمعیت اہلحدیث ہند (۹)دکتور اقبال مدنی بسکوہری استاذ جامعہ محمدیہ مالیگاؤں (۱۰)مولانا محمد یحییٰ فیضی سابق استاذ جامعہ رحمانیہ بنارس (۱۱)شیخ معراج ربانی حفظہ اللہ اور سعودی عرب سے جامعۃ الامام محمد بن سعود کی شاخ کلیۃ الشریعۃ بالاحساء کے موقر استاذ اور جمعیۃ خیریۃ لتحفیظ القرآن الاحساء کے نمایاں رکن ڈاکٹر عبد السلام الحصین اور الاحساء کی ایک معروف علمی شخصیت جامع الملک فیصل کے امام و خطیب شیخ ولید الصاھود وغیرہ ڈاکٹر عبد السلام الحصین تو والد صاحب کے اخلاق سے بے حد متاثر ہوئے تھے ،یہاں آنے کے بعد اپنے حلقوں میں اپنے سفر کا اچھا تاثر پیش کیا تھا اور والد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شکل و شباہت میں شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے ملتے جلتے ہیں ۔
اور یہ بات بھی باعث شرف و اعزاز ہے کہ جب نازش جماعت جناب صوفی نذیر احمد صاحب کشمیری رحمہ اللہ پہلی بار مستقل قیام کے ارادے سے شنکر نگر تشریف لائے تو جب تک ان کے لیے مستقل باورچی کا بند و بست نہیں ہوا والد صاحب ان کے لیے گھر سے کھانا تیار کرکے ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرتے رہے ، والدہ محترمہ جو والد محترم سے تقریبا چھ سال پہلے وفات پاچکی تھیں انتہائی نیک ، صابرہ ، شاکرہ اور مہمان نواز خاتون تھیں والد محترم کی طرح وہ بھی علم اور علماء کی بڑی قدر داں تھیں۔
جماعت سے لگاؤ : جماعت سے بھی خاصی دلچسپی لیتے تھے، اس کے کانفرنسوں میں حتی الامکان شریک ہوتے تھے چنانچہ جب ۱۹۶۱ میں آل انڈیا اہلحدیث کا تاریخی اجلاس نوگڑھ میں منعقد ہوا تو گاؤں کے دیگر افراد کے ساتھ والد صاحب بھی شریک ہوئے اس اجلاس کی بہت سی باتیں ان کے حافظہ میں موجود تھیں اس کے علاوہ ۱۹۶۸ میں جب تلسی پور میں جمعیت اہلحدیث بستی و گونڈہ کا صوبائی اجلاس ہوا تو اس میں بھی والد صاحب شریک ہوئے اسی طرح مئو کے کانفرنس میں بھی آپ نے شرکت تھی ہمارے گاؤں شنکر نگر میں والد صاحب کے بچپن میں ۱۹۵۲ اور ۱۹۵۳ میں دو بڑے اجلاس ہوئے تھےوالد صاحب کو صغر سنی کے باوجود ان دونوں پروگراموں میں شرکت کرنے والے علماء کرام کے نام تک یاد تھے ۔
مطالعہ اور کتب بینی کا شوق:والد صاحب مطالعہ کے بڑے شوقین تھے ، جماعت کے مختلف رسائل و جرائد منگایا کرتے اور ہمیشہ ان کا مطالعہ کیا کرتے ، نیا شمارہ ختم کرنے کے بعد پرانے شمارے پڑھا کرتے خاص طور سے پندرہ روزہ ترجمان تو مولانا عبد الحمید صاحب رحمانی اور مولانا عبد السلام صاحب رحمانی رحمھما اللہ کی ادارت کے زمانےسے ہی ہمارے گھر آتا تھا اس کے علاوہ ماہنامہ آثار مئو ، ماہنامہ البلاغ ممبئی ،ماہنامہ صوت الحق مالیگاؤں ، ماہنامہ محدث بنارس ماہنامہ السراج جھنڈا نگر اور افکار عالیہ مئو وغیرہ یہ سب مجلے والد صاحب منگواتے رہے اور ان کو ترتیب دے کر ان کی جلد سازی کراکر انہیں حفاظت سے الماری میں رکھے ہوئے تھے ، ان کے علاوہ اردو کی بہت سی کتابیں آپ کی الماری کی زینت تھیں جنہیں مطالعہ کیا کرتے تھے بالخصوص سلف صالحین علماء کرام کے حالات سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا کاروان سلف کی جتنی جلدیں طبع ہوچکی ہیں انہیں حاصل کرکے کئی مرتبہ ختم کرچکے تھے اس طرح ماہنامہ محدث بنارس کا شیخ الحدیث نمبر افکار عالیہ مئو کا مقتدی حسن ازہری نمبر کا اکثر مطالعہ کرتے رہتےتفسیر احسن البیان تو مستقل روزانہ صبح و شام پڑھا کرتے اور نہ جانے کتنی بار اسے ختم کرچکے تھے اس کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت بھی بکثرت کیا کرتے ، والدہ کے انتقال کے بعد سے ہی ان کا یہ معمول تھا کہ پچھلی پہر بیدار ہوتے ، تہجد کی نماز ادا کرتے اور پھر اذان فجر تک قرآن کی تلاوت کرتے، دن میں بھی مختلف اوقات میں قرآن کی تلاوت کرتے ، عشاء کے بعد بھی تلاوت میں مصروف رہتے اور رمضان میں بیشتر وقت تلاوت ہی میں گزارتے گھر والوں کا بیان ہے کہ گزشتہ رمضان میں پیرانہ سالی ، بیماری ، کمزوری اور بھوک و پیاس کے باوجود ہروقت قرآن کی تلاوت کرتے رہتے حتی کہ ہر تین دن میں قرآن ختم کرتے تھے۔ والدہ ساحبہ کی وفات کے بعد والد صاحب موت کو بہت یاد کرنے لگے تھے ، دنیا سے رغبت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ، زیادہ توجہ اور فکر آخرت کو بنانے اور سنوارنے کی تھی ، ان میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ جب کسی عمل کی طرف رغبت دلائی جاتی اور اس کی فضیلت بیان کی جاتی تو فورا اس کو قبول کرلیتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ۔
خوش الحانی :اللہ نے ان کی آواز میں بڑی مٹھاس ، کشش اور جاذبیت رکھی تھی ، بہت عمدہ نظم پڑھتے تھے مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے اور ہم سب بھائی بہن والدین کے ساتھ اکٹھا سویا کرتے تھے تو یا تو کوئی کتاب پڑھ کر سناتے یا کوئی نظم سناتے اسی طرح جب رات میں سلائی کرنے کے لیے بیدار ہوتےتو نشاط ، حرکت اور چستی پیدا کرنے کے لیے بلند آواز سے نظم پڑھاتے کرتے تھے اور اپنی صدائے دلنواز سے مسحور کن سماں طاری کر دیتے ، کچھ مصرعے ابھی بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں مثلا ایک حمد حجازی صاحب کی ترجمان میں شائع ہوئی تھی جس میں یہ مصرعہ تھا چار سو تیری جلوہ نمائی ،اسی طرح حفیظ جالندھری کی مشہور زمانہ نظم صحرا کی دعا ،اسی طرح ایک نظم جس کا مطلع تھا اے طائران گنبد خضرا جواب دو اےساکنان قصر تمنا جواب دو اسی طرح شکیل عباسی کی لکھی ہوئی ایک نظم خوب لے سے پڑھتے تھے جس کا ایک مصرعہ تھا۔ ارادے ٹوٹتے جاتے ہیں نیکی اور طاعت کے ہماری زندگی کیا ہے خسارہ ہی خسارہ ہے
والد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ ان کے بچپن میں جب مولانا زین اللہ صاحب کا شنکر نگر آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کے وعظ اور تقریر کے دوران نیز حافظ محمد عمر شنکر نگری اور مولوی محمد عمر سیکھر پوری کے وعظ کے وقت ان سے شاہنامہ کے اشعار پڑھنے کی فرمائش کی جاتی تھی ۔
دینی ، رفاہی و سماجی خدمات : جیسا کہ ذکر ہوا کہ والد صاحب دینی کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھےاور اس سلسلے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھےآپ کے نمایاں کاموں میں سے ایک اہم کام مساجد کی تعمیر ہے اللہ تعالی نے انہیں یہ شرف بخشا کہ اپنے گاؤں شنکر نگر ، شہر بلرام پور ،شہرتلسی پور اور ان کے مضافات میں اپنے صاحبزدگان کی کاوشوں سے دسیوں مساجد تعمیر کرائیں اور سب سے عظیم کارنامہ جو ان شاء اللہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا قلب شہر بلرام پور میں ایک عظیم الشان جامع مسجد کی تعمیر اور مرکز ہادی اعظم کی تاسیس ہے جس کی ضرورت نصف صدی سے شدت سے محسوس کی جارہی تھی کیونکہ بلرام پور سے تقریبا چھ کلومیٹر کی دوری پر مشہور اہلحدیث بستیاں شنکر نگر، پروا اور بھیکم پور واقع ہیں جن کے افراد کو روزانہ مختلف کاموں سے سیکڑوں کی تعداد میں بلرام پور آنا پڑتا ہے ، ان کے علاوہ ضلع ہونے کی وجہ سے تلسی پور ، کوا پور اور ان کے مضافات کے اہلحدیث بھی مختلف ضروریات سے بلرام پور کا رخ کرتے ہیں، قلب شہر میں اہلحدیث مسجد نہ ہونے کی وجہ سے بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا خاص طور سے جمعہ کے دن بدعتیوں کی مساجد میں نماز پڑھتے ہوئے بڑی ذہنی و روحانی کوفت ہوتی تھی کیونکہ اہلحدیث مساجد دور اور شہر کے اطراف و اکناف میں واقع تھیں اللہ والد صاحب کو غریق رحمت کرے انہوں نے برادر عزیز حافظ نسیم احمد سلمہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اور پھر ان کی کوشش سے ایک خطیر رقم کے عوض ایک دو منزلہ عمارت خریدی جس کے بالائی حصہ کو جامع مسجد کی شکل دی گئی اور نچلے حصے کو مرکز ہادی اعظم کا دفتر ومکتبہ قائم کرکے دعوت و تبلیغ ، تعلیم و تربیت اور نشر و اشاعت کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور الحمد للہ قلیل عرصے میں خاطر خواہ تعلیمی ، تصنیفی ، دعوتی اور رفاہی کام کارہائے نمایاں انجام پائے،اب تک اس کے زیر اہتمام آٹھ کتابیں اور مختلف موضوعات پر پمفلٹ اردو اور ہندی میں شائع ہوچکی ہیں اور ہزاروں کتابیں مفت تقسیم ہوچکی ہیں۔
اس کے علاوہ متعدد مواقع پر خاص طور سے ماہ رمضان میں برادر عزیز حافظ نسیم سلمہ کے توسط سے فقراء و مساکین میں سامان خورد و نوش اور عید کے موقع پر کپڑے تقسیم کیا کرتے تھے ابھی کرونا کی وباء کے ایام میں گاؤں شنکر نگر اور بلرام پور میں سیکڑوں حاجت مندوں کے درمیان سامان خورد و نوش اور بنیادی ضروریات کی چیزیں تقسیم کرائیں۔
حج و عمرہ کی سعادت :والد صاحب پر اللہ کا خصوصی فضل ہو ا کہ متعدد بار اپنے گھر کی زیارت کی سعادت بخشی پہلی مرتبہ ۱۹۹۶ میں والدہ صاحبہ کے ساتھ حج و عمرہ کا شرف حاصل ہوا اور میری یہ خوش نصیبی تھی کہ حج کے دوران والدین کے ساتھ رہنے اور ان کی خدمت کرنے کا حسین اور یادگار موقع وشرف ملا پھر والدہ کی وفات کے بعد ۲۰۱۵ میں زیارت کے ویزے پر الاحساء آئے اور تقریبا تین ماہ قیام کیا اس دوران دو مرتبہ عمرہ کی زیارت سے مشرف ہوئے پھر تیسری بار ۲۰۱۸ میں زیارت کے ویزے پر الاحساء آئے اور کم و بیش دو ماہ قیام کیا اس عرصہ میں دو بار عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی پہلی بار برادرم حافظ نسیم احمد محمدی کے ہمراہ اور دوسری بار میرے ہمراہ اور پورے سفر میں نہایت ہی چاق و چوبند رہے ،واپسی کے وقت طواف وداع کا وقت آیا تو چونکہ بھیڑ کافی تھی ، روزہ کی حالت میں تھے، اسی دن ظہر کے وقت واپسی بھی تھی اور عمرہ میں طواف وداع ضروری بھی نہیں ان اسباب کی بنیاد پر میری منشا تھی کہ بغیر طواف وداع کیے واپس ہوجائیں لیکن والد اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ طواف وداع کی ،میں نے بھی ساتھ میں طواف کیا پھر دعا وغیرہ کرنے کے بعد واپس ہوئے۔
بیماری اور وفات : والد صاحب سگر کے مریض تھے لیکن علاج و معالجہ اور شدید حذر و احتیاط کی وجہ سے سگر ہمیشہ نارمل رہتا تھا ، کسی حد تک صحت مند و تندرست تھے وفات سے تقریبا دس دن پہلے سردی و زکام کا عارضہ لاحق ہوا پھر معمولی ضیق تنفس (سانس کی دشواری ) کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ، مختلف ڈاکٹروں سے علاج کرایا ، کبھی افاقہ ہوتا اور کبھی مرض عود کرآتا لیکن چلتے پھرتے کھاتے پیتے تھے ، وفات والے دن لکھنؤ جانے کا پروگرام تھا ، رات میں مجھ سے بات ہوئی تھی اور میں نے انہیں سرکاری اسپتال نہ جانے کی تاکید کی تھی اور انہوں نے کہا تھا ایک قرابت دار کے واسطے سے پرائیوٹ ڈاکٹر کو دکھانا ہے جن کے علاج سے گاؤں کے ایک آدمی کو اللہ نے اسی جیسی بیماری سے شفا دے دی تھی ، کسے خبر تھی کہ وہ صبح ان کی زندگی کی آخری صبح ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے آنا فانا وقت نوعود آپہنچا ، اچانک آنکھ بند ہوگئی اور ہم تمام لوگوں کو سوگوار روتا بلکتا چھوڑ گئے اللہ اپنی رحمت خاص سے اعلی علیین میں جگہ دے ان کی لغزشوں کو درگزر کرتے ہوئے ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند بلند فرمائے اور ہم سب کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
نماز جنازہ اور تدفین:ان کی مقبولیت اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت تھی کہ ان کے جنازے میں عوام و خواص کا ایک سیلاب امنڈ آیا حسب اعلان بعد نماز عصر ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور کے ناظم اعلی اور والد صاحب کے قدر داں مولانا زبیر احمد صاحب مدنی حفظہ اللہ کی امامت میں پڑھی گئی اور آغوش لحد میں سپرد خاک کیا گیا۔
پسماندگان:پسماندگان میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو سبھی شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں ، بیٹوں میں چار بیٹے حافظ قرآن اور عالم دین ہیں ، تینوں بڑے بیٹے سعودی عرب میں برسر روزگار ہیں اور دونوں چھوٹے بیٹے اپنے وطن میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں اللہ ان سب کو صبر جمیل کی توفیق دے ، ان کی کمائی میں برکت دے ، آپس میں میل ومحبت سے رہنے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور والدین کی توقعات اور خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے نیز والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین یا رب العالمین۔
4,819 total views