نئی دہلی
اردو کے معروف شاعر، مشہور تنقید نگار اور معتبر مصنف شمس الرحمن فاروقی کا 85 سال کی عمر میں آج بروز جمعہ 25 دسمبر 2020 کو ان ک آبائی وطن الہ آباد میں انتقال ہو گیا۔ وہ کافی دنوں سے بیمار چل رہے تھے۔ فاروقی آج صبح ہی دہلی سے پرواز کے ذریعے الہ آباد پہنچے تھے، جہاں صبح 11.20 پر ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی تدفین آج یعنی جمعہ کی شام 6 بجے جامعہ کے نزدیک اشوک نگر کے قبرستان میں انجام دی جائے گی۔ شمس الرحمن کے انتقال سے ادبی دنیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے اردو ادب میں نئی اقدار وروایات کی تشکیل کی تھی۔ انہوں نے ادبی تنقید کے مغربی اصولوں کو ملحوظ نظر رکھا اور بعد میں انھیں اردو ادب میں نافذ کیا۔
شمس الرحمن 30 ستمبر 1935 کو پیدا ہوئے تھے۔ آزاد خیال ماحول میں پرورش پانے والے شمس الرحمن نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی مقامت پر ملازمت کی۔ انہوں نے 1960 میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ 1960 سے 1968 تک وہ انڈین پوسٹل سروسز میں پوسٹ ماسٹر رہے اور اس کے بعد چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور 1994 تک پوسٹل سروسز بورڈ، نئی دہلی کے رکن بھی رہے۔
شمس الرحمن نے امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ الہ آباد میں ’شب خوں‘ میگزین کے ایڈیٹر رہے۔
میر تقی میر پر ان کی شہرہ آفاق کتاب شعر شور انگیز چار جلدوں میں شائع ہوئی ۔ تفہیم غالب ، تعبیر کی شرح ، انداز گفتگو کیا ہے ، اردو کا ابتدائی زمانہ ، درس بلاغت ، اردو غزل ، اشارات و نفی ، تنقیدی افکار ، خورشید کا سامان سفر، کئی چاند تھے سر آسماں ، لغات روزہ مرہ اور تضمین اللغات شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین تخلیقات میں شامل ہیں ۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ سوار اور ان کا ضخیم ناول کئی چاند تھے سر آسمان کا ترجمہ دنیا کی کئی اہم زبانوں میں ہو چکا ہے ۔
شمس الرحمان فاروقی کو ان کی زندگی میں جو شہرت اورمقبولیت ملی وہ بہت کم اردو ادیبوں کو نصیب ہوئی ہے ۔ حکومت ہند کی جانب سے ان کو پدم شری کا اعزاز ملا ۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی گراں قدر خدمات کے لئے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا ۔ شمس الرحمان فاروقی کو ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز سرسوتی سمان اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سمیت مختلف اردواکیڈمیوں کی طرف سے ایوارڈس سے نواز گیا ۔
شمس الرحمٰن کو اردو میں تنقید نگاری کا ماہر قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں ’سرسوتی ایوارڈ‘ کے علاوہ 1986 میں اردو کے لئے ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ سال 2009 میں انہیں پدم شری ایوارڈ سے دیا گیا تھا۔
1,075 total views