شمیم احمد ندوی
ناظم اعلٰی جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال
یوں تو مغرب کی طرف سے "اسلاموفوبیا” کے تحت کئے جانے والے اقدامات اور مسلمانان عالم کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کوئی نئ بات نہیں ہے،لیکن سانحہ نائن الیون کے بعد مغرب میں ملکی و ریاستی سطح پر جس طرح "اسلاموفوبیا” میں اضافہ ہوا ہے اس کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔یورپ و امریکہ میں کہیں بھی چھوٹے یا بڑے پیمانے پر کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوتا ہے،خواہ اسے انفرادی طور پر کسی نے انجام دیا ہو یا اس کی تہہ میں کسی تنظیم کا ہاتھ ہو اگر اس کو انجام دینے والا شخص یا افراد مسلمان ہوں تو فوری طور پر اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور پورے مذہب اسلام کو ایک دہشت گردانہ مذہب قرار دینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی جاتی ہے،جب کی مغربی ملکوں میں قتل و خوں ریزی اور فائرنگ کے ایسے بےشمار واقعات وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں جن میں اکثریتی فرقہ یعنی عسائیت کو ماننے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔
کبھی کوئی طالب علم اپنے ہی ساتھیوں کو گولیوں کا نشانہ بناتا ہے، کبھی کسی نائٹ کلب میں گولیاں چلتی ہیں اور کبھی پیدل چلتے ہوئے راہگیروں پر کنٹینر چڑھا دیا جاتا ہے اور چشم زدن میں درجنوں بےگناہ لوگوں کو موت کی نید سلا دیا جاتا ہے لیکن کبھی ایسے واقعات کا رشتہ عسائیت سے نہیں جوڑا جاتا بلکہ اسے کسی جنونی اور انتہا پسند شخص کی انفرادی حرکت کہہ کر اس پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔گذشتہ سال مارچ کے مہینہ میں نیوزی لینڈ کی مسجد میں ایک عیسائی دہشت گرد انتہا پسند شخص نے مسجد میں عین نماز جمعہ کے دوران گولیاں چلاکر پچاس سے زیادہ نمازیوں کو شہید کر دیا لیکن کسی میڈیا نے نہیں دیکھایا تھا۔
977 total views