حج بیت اللہ اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ، اہم ستون اور افضل ترین عبادت ہے، جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ ”وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا“۔ (آل عمران:۷۹)”اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیا ہے“۔
فریضہ و مناسک حج کی بے شمار اہمیت و فضیلت اور ضرورت و معنویت کا ہی ثمرہ ہے کہ آج کے مادی دور میں بھی پوری دنیاسے اہل توحید لاکھوں کی تعداد میں مکہ مکرمہ کا قصد کرتے ہیں اور فریضہ و مناسک حج ادا کرکے اپنے پالنہار کے نزدیک سرخرو ہوتے ہیں۔ حکومت سعودی عرب اپنے قیام کے اول دن سے حجاج بیت اللہ الحرام کی راحت رسانی کا سامان اعلی درجے کاکرتی آئی ہے اورحج کو آسان ومامون اور وسیع تروآرام دہ بنانے کے لیے امور حج میں اصلاحات کا عمل برابر جاری ہے۔ اس نے ممکنہ تمام وسائل وذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے بے مثال خدمات انجام دی ہیں، حجاج وزائرین کومنقطع النظیر راحت وآرام پہنچایا ہے اوراس راہ میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے لوٹنے والے حجاج و زائرین اور معتمرین سعودی حکومت کے حسن انتظام اور بہترین ضیافت و راحت کی تعریف و تحسین کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔
لیکن یہ حرمان نصیبی کی بات یہ ہے کہ مملکت سعودی عرب جسے ہر سال لاکھوں عازمین حج اور عمرہ کی خدمت کرنے کا اعزاز حاصل ہے، نے عالمی وبا کووڈ -۹۱ اور روز بروز بڑھتی ہوئی اس کی سنگینی کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنی شدید خواہش اور بڑی کوشش اور تیاریوں کے باوجودبادل نخواستہ فیصلہ کیا ہے کہ امسال فریضہ ومناسک حج صرف مملکت سعودی عرب میں مختلف قومیتوں کے مقیم افراد ہی ادا کرسکیں گے۔ اس فیصلے کا مقصدیقینا فریضہ حج کو پر امن اور صحت مند طریقہ سے قائم کرنا ہے جس میں انسانی جان کی حفاظت کے حوالے سے شریعت اسلامیہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے موجودہ وبا کے خطرات سے انسان کی حفاظت وسلامتی یقینی ہو ۔ کیوں کہ مکہ مکرمہ تمام مومنین عالم کے لیے سب سے زیادہ پر کشش اور عقیدت و احترام کی جگہ ہے اور ساری دنیا کے انسانوں کے دل اس مرکزی جگہ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ دنیا کا کوئی خطہ نہیں جہاں کے بسنے والے انسان اور مسلمان اس گھر کو نہ چاہتے ہوں ۔ پھر ظاہر بات ہے کہ جب وہ اس کا والہانہ قصد کریں گے تو اس مہاماری کے وقت میں ان کے پیچھے رہ جانے الے اہل خانہ اور خویش واقارب بھی تشویش و اندیشے میں مبتلا ہوں گے اور ان کے آگے بھی جہاں وہ جائیں گے اقصائے عالم سے آیا ہوا اژدھام بھی خائف ہوگا ۔ اس طرح چہار دانگ عالم میں اندیشہائے دراز کا ماحول مزید بنے گا اور قوت ایمانی اور توکل و یقین کے باوجود شکوک و شبہات جنم لینے کے امکانات بڑھیں گے۔ خود اس امن وامان اور مقد س ومامون جگہ میں آنے والا بفحوائے و مقتضائے کلام رب العالمین ”جو بھی اس میں داخل ہوگا آمن و مامون ہوگا “کے برخلاف مزید اندیشے کا شکار ہوگا۔ لہٰذا ایسی صورت میں امسال مواطنین و مقیمین کی محدود تعداد کو ہی حج میں منظوری دینے اور استقبال کرنے کا سعودی حکومت کا فیصلہ اور حکوماتِ عالم اور مسلمانوں کی خاموش تائید ہی قرین مصلحت ، لائق تحسین، قابل قبول او رمبنی بر حکمت و ضرورت قرار داد واقدام ہے جس کی تعریف ہر صاحب عقل و بصیرت کرتا ہے۔ اور اس طرح یہ فیصلہ زائرین حرمین شریفین کی سلامتی اور حفاظت کے حوالے سے مملکت سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے ۔
بلاشبہ حکومت سعودی عرب کا یہ فیصلہ شرعی وطبی تقاضے کے عین مطابق ہے اور انسانی جان کے تحفظ اور ضروری سماجی دوری کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ حکیمانہ اقدام کیا گیا ہے ۔اس لیے مسلمانان عالم کو اس دانشمندانہ اور موفق فیصلے کی تائید و ستائش کرنی چاہئے اور اس وقتی محرومی پر صبر و شکر سے کام لینا چاہئے اور امت کو بلاوجہ خرخشے میں ڈالنے کی ہر کوشش سے بچنا چاہئے اور ایسے حالات میں جبکہ اس عالمی وبا ئی مرض کے مسلسل بڑھتے ہوئے خطرات ،متاثرہ افراد کے لیے کسی خاص ویکسن یا علاج کے دستیاب نہ ہونے اور عالمی سطح پر صحت کی حفاظت کو بر قرار رکھنے کے لیے خصوصا جبکہ بین الاقوامی ادارہ صحت کی جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق زیادہ تر ممالک میں وبا کی شرح بڑھتی جارہی ہے ، سعودی حکومت کے اس فیصلے کے حوالے سے مسلمانان عالم کو تنگی و حرج میں مبتلا نہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ موجودہ حالات میں شریعت کا تقاضہ بھی یہی ہے اور شریعت میں اس کی بنیادیں بھی موجود ہیں اور یہ توکل علی اللہ کے منافی بھی نہیں ہے۔ نیز یہ ہے کہ امسال کے التوئے حج سے دین و ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اللہ کا دین جس طرح چودہ سو سالوں سے جس شان و شوکت سے جاری و ساری ہے اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ تا صبح قیامت یہ دین جاری و ساری رہے گا۔ ان شاءاللہ ۔
واضح ر ہے کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب حج جو زیارت بیت اللہ بوجوہ ملتوی ہوا ہے۔ بلکہ اسلامی تاریخ میں چالیس مواقع ایسے آئے ہیں جب وبائی امراض ، سیاسی کشمکش و ہنگامہ آرائی ، بد امنی ، مہنگائی، اقتصادی مندی، چوراور ڈاکوﺅں کی وجہ سے راستے غیر محفوظ ہونے جیسے وجوہات سے فریضہ حج کی ادائیگی ملتوی ہوگئی تھی ،لیکن جب حالات معمول پر آگئے ، راستے مامومن ہوگئے، انسانی جان و مال کو کوئی خطرہ لاحق نہ رہا تو سلسلہ حج بدستور جاری ہوگیا۔لہٰذا حج کا عارضی و محدود التوا حفظ دین وارکان اسلام کے منافی نہیں ہے۔ نیز یہ کہ التوائے حج جان کی حفاظت کے لیے جائز ہے اور یہ ان پانچ ضروریات میں سے ہے جن کی حفاظت کرنے پر تمام آسمانی مذاہب متفق ہیں۔ اسی طرح حج کو مطلقاً جاری رکھنے میں ارض حرم کو مختلف وباءو امراض کا شکار کردینے کے مترادف ہوگا ۔ حالانکہ اس کی حفاظت ، اس کا احترام اور اس کی معنوی و ظاہری پاکی و صفائی یکساں طور پر مطلوب ہے۔ ہمارا یہ پختہ ایمان ہے کہ اللہ ہی بہتر حفاظت کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور وہی اپنے گھر اور بندوں کی حفاظت فرمائے گا۔ لیکن اسی نے اسباب وو سائل اختیار کرنے اور بچاﺅ کی صورتیں اپنانے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا اس کا اختیار کرنا حکم الٰہی کا امتثال ہے اور اس پر توکل کو یقینی بناتا ہے۔ سعودی عرب نے اس عالمی بحرانی ووبائی صورت حال میں و ہ صحیح موقف اور درست راہ اختیار کی ہے جو شریعت کے قواعد و ضوابط کے موافق ہے، فطرت سلیمہ کے مطابق ہے اور عقل اور صحت کی عالمی تنظیموں اور وبائی امراض کے مراکز کی سفارشات و قرار داد کے عین موافق ہے جو اس وبا کے روک تھام کے لیے ضروری قرار دی گئی ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ حکومت سعودی عرب کا یہ دانشمندانہ فیصلہ تائید و تحسین کے لائق ہے۔ جس کے لیے سعودی حکومت، علمائ، وزارت حج، وزارت برائے اسلامی امور اور وزارت داخلہ و خارجہ لائق مبارک باد ہے۔ ایسے میں مسلمانان عالم کو سعادت حج و زیارت سے اس وقتی محرومی پر صبر و شکر کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس وبا سے اپنے بندوں کو جلد از جلد نجات عطا فرمائے تاکہ اس کے بندے بلا خوف و خطر رہ سکیں ، امن و چین کی زندگی گذار سکیں، اللہ کے گھروں کو اپنے سجدوں سے آباد کرسکیں اور اس کے پہلے گھر کی زیارت و حج اور عمرہ سے سرفراز ہوسکیں۔
مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی
امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند
1,475 total views