نوشتۂ دیوار ڈیسک
کہا جاتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستان کے مسلمانوں کی متحدہ تنظیم ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران بھی یہی باور کراتے ہیں کہ یہ تنظیم تمام مکاتب فکر کا متحدہ پلیٹ فارم ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے عائلی قوانین کو تحفظ فراہم کرنے کی دعوے دار ہے لیکن دعویٰ اورزمینی حقیقت کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ دعوی محض ہے جس کی زندہ جاوید مثال بورڈ کا مدھیہ پردیش میں منعقدہ انتخاب نو بھی ہے۔ حضرت مولاناسید رابع حسنی ندوی صاحب کے انتقال پرملال سے بورڈ کی صدارت کا عہدہ خالی ہوگیا تھا جس کو پر کرنے کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اراکین کی ایک اہم میٹنگ مدھیہ پردیش کے جامعہ اسلامیہ مہوبنجاری میں منعقد ہوئی اور اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کے علمی ، روحانی اور خاندانی جانشین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اتفاق رائے سے پانچویں صدر کے طور پر منتخب ہوگئے ہیں۔اس سے پہلے موصوف بورڈ کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔
واضح ہوکہ کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلائی گئی تھی کہ جمعیۃ علمائے ہند کے صدرحضرت مولاناسید ارشد مدنی کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی صدارت کا عہدہ تفویض کیا جاسکتا ہے اور باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں کافی تگ و دو بھی صرف ہوئی لیکن حضرت مولانا نے ناسازیٔ طبع اور پیرانہ سالی کا حوالہ دے کر صدارت کی دوڑ سے اپنے آپ کو الگ کرلیا ۔
اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی گلبرگہ شریف اورانجینئر سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند کو نائبین صدر کے عہدے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ حضرت مولانافضل الرحیم مجددی صاحب کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا ہے جبکہ مولاناسید بلال حسنی ندوی صاحب، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی اور مولانا یٰسین علی عثمانی بدایونی کا بطور سیکریٹری ، ڈاکٹر سیدقاسم رسول الیاس صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا بحیثیت ترجمان اور مسٹر کمال فاروقی بطور معاون ترجمان منتخب ہوئے۔
آپ اس انتخاب نو کی ہیئت کذائی کو دیکھیں اور ذمہ داران کی لسٹ کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ تمام حضرات اصلاً ایک خاص مسلک ( مسلکِ حنفی) کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہندوستان کے بہت سارے مسالک و مکاتب فکر جن کے وابستگان کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے، ان کے اکابر علماء اور دانشوران کو نظرانداز کردیا گیا۔ شیعہ اور جماعت اہل حدیث کی کسی سربرآوردہ شخصیت کو کسی عہدے کے لئے منتخب نہ کیا جانا بتاتا ہے کہ اس انتخاب میں بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے عہدوں کو کسی خاص مسلک کے ساتھ ہی محدود کرنے کی دیدہ و دانستہ کوشش کی گئی ہے جبکہ اس سے پہلے روایت رہی ہے کہ مولانا کلب صادق نائب صدر کے طور پر شیعوں کی نمائندگی کرتے رہے ۔اسی طرح حضرت مولانا مختار احمد ندوی نائب صدر کے طور پر اہل حدیثوں کی نمائندگی کرتے رہے لیکن نہ جانے کیوں بورڈکی موجودہ قیادت مسلم پرسنل کو ایک خاص مسلک کی جاگیر سمجھنے لگی ہے حالانکہ اس سے پہلے طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں بورڈ کے ذمہ داروں نے جس انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی فضیحت کرائی اور پھر شیعہ اور اہل حدیث حضرات نے وسعت قلبی اور اتحادِ ملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مسلکی ترجیحات کو چھوڑ کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کی حمایت کی وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہےلیکن ہائے افسوس کہ بورڈ کے ذمہ داران کو دیگر مسالک کی اس طرح کی متعدد قربانیاں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی یاد نہ رہیں۔
ملک کے روز بروز بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مسلم پرسنل لاء کے نئے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مسالک کے علماء و دانشوران کو مناسب نمائندگی دینے کی کوشش کریں گے تاکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کھوئے ہوئے وقار کی بازیافت ہوسکے، ورنہ اگر موجودہ وقت میں کسی مکتب فکر نے یہ اعلان کردیا کہ ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حالیہ الیکشن سے مطمئن نہیں ہیں تو پھر اس سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا جو بچا کھچا بھرم ہے جو بساغنیمت ہے وہ بھی اٹھ جائے گا۔
بعض لوگوں کی یہ بات بھی معقول لگتی ہے کہ جو حضرات کسی ادارہ یا تنظیم کے سربراہ ہوں ان کی ایک الگ وچار دھارا اور مخصوص آئیڈیالوجی ہو ان کو مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے سنجیدہ پلیٹ فارم کے کلیدی عہدوں پر فائز کرنا قرینِ مصلحت نہیں کہاجاسکتا کیونکہ ان کے بیانات اور مواقف کو معاصر میڈیا بورڈ سے جوڑ کر پیش کرسکتی ہے اور اس سے ملت بیضاء کا مشترکہ مفاد بلاوجہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
بورڈ کے سلسلے میں یہ بھی تاثر عام ہے کہ عہدہ صدارت کے لئے مخصوص چھڑی اور مخصوص صافہ سے منسلک کردیا گیا ہے جبکہ موجودہ حالات میں ملک و ملت کو عصائے موسوی اور گلیم بوذری دونوں کی ضرورت ہے۔
874 total views