نئی دہلی
جامعہ ابوبکر الصدیق الاسلامیہ مغربی چمپارن ایک تعلیمی و رفاہی ادارہ ہے جو تعلیم و تربیت کے میدان میں بہت ہی نمایاں کارنامہ انجام دے رہا ہے۔اس ادارہ میں قومی تہواروں کے موقعوں پر دیش پریم اور وطن محبت پر مبنی پروگراموں کومنعقد کرنے کی روایت رہی ہے جس میں بلاامتیاز مذہب و مسلک اہل علم اور مشاہیر شرکت کرتے رہے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے ہیں۔ یوم آزادی کی مناسبت سے اس سال بھی جامعہ کے زیر اہتمام ایک شاندار کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ملک و بیرون ملک کے بہت سے علمائے کرام، سماجی شخصیات، تعلیمی ہستیوں اور رفاہی و سماجی افراد نے شرکت کی۔کانفرنس کا مرکزی موضوع تھا”آزادیئ ہند میں خواتین کا کردار“۔
کانفرنس کا آغاز معہد علی بن ابی طالب لتحفیظ القرآن الکریم کے استاذ قاری محمد الطاف سلفی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد رفیق المرکز الاسلامی دہلی اورمدرسہ سراج العلوم، کٹیہار کے پرنسپل مولانا محمد ابراہیم سجاد تیمی نے بہت ہی مترنم اور خوش کن آواز میں اپنی ایک نعت شریف پیش کی۔ اس کے بعد علمائے کرام کے تاثرات اور خطابات کا سلسلہ شروع ہوا۔
پروگرام کے آغاز میں پروگرام کے آرگنائزر مولانا محمد اظہر مدنی حفظہ اللہ نے جامعہ ابوبکر الصدیق الاسلامیہ کا مختصر تعارف اور علم و تعلیم کے میدان میں اس کے کارناموں کا تذکرہ کیا اور تمام مشارکین کانفرنس کا خیرمقدم اور شکریہ ادا کیا جنہوں نے ذمہ داران ہمت افزائی اور کانفرنس کی تحسین و تعریف کی۔ نیز مولانا نے پوری تفصیل سے آزادی ہند میں خواتین کے کردار کے تعلق سے تاریخی حقائق کو بیان کیا جس میں تاریخی حوالوں سے بتایا کہ بلاتفریق مذہب و ملت ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اس تحریک کو جلا بخشی اور اپنے خون و پسینہ سے اسے سینچا۔ خواتین ہند کا کردار اس قدر واضح اور روشن ہے کہ وہ آزادی ہند کی تاریخ کا نصف حصہ ہے اور تاریخ کے اسی حصہ کو اجاگر کرنے کے لئے ہم نے آج کی یہ بزم سجائی ہے۔
آپ کے بعد ہندو نیپال کی مشہور شخصیت اور نیپال کے مرکزی اور عظیم درس گاہ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے ناظم اعلیٰ مولانا شمیم احمد ندوی نے بہت ہی جامع انداز میں خواتین کا آزادی ہند پر اپنا خطاب پیش کیا۔ مولانا نے اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر جامعہ کے صدر مولانا محمد اظہر مدنی کو مبارک باد پیش کی اور ان کے تمہیدی اور آزادیئ ہند میں خواتین کے کردار پر مبنی ان کے تمہیدی کلمات کو جامع قرار دیتے ہوئے بے حد سراہا۔آپ نے مزید کہا کہ یقینی طور پر اس موضوع کا انتخاب ہی بتاتا ہے کہ ذمہ داران جامعہ نے کتنی حکمت سے اس کو منتخب کیا ہے کہ اس میں ہر قوم، ہر پنتھ، ہر دھرم اور ہر مذہب کی خواتین داخل ہوسکتی ہیں اور موجودہ وقت میں اس کی اہم ضرورت بھی ہے۔
مولانا انعام الحق مدنی ناظم صوبائی جمعیت اہل حدیث بہار نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا کیونکہ ہر کوئی آزادیئ ہند میں مردوں کی خدمات کا تذکرہ تو کرتا ہے لیکن خواتین کا تذکرہ نہیں ہوپاتا تو یہ نصف تاریخ کے تذکرہ کا بہت ہی موثر ذریعہ ہے۔مولانا نے اس تاریخی کانفرنس کے انعقاد کے لئے ذمہ داران جامعہ خصوصاً مولانا محمد اظہر مدنی کو بھرپور مبارک باد پیش کی۔
مولانا انصار زبیر محمدی صدر اسلامک کونسل آف انڈیا، ممبئی نے اس موقع پر کہا کہ مولانا اظہر مدنی نے اس اچھوتے موضوع پر ورچول کانفرنس کرکے ایک انوکھی پہل کی ہے اور پورے ملک کے لئے ایک نمونہ پیش کردیا ہے کہ آزادی ہند میں خواتین کا کیا کردار تھا، اس پر روشنی ڈالنی چاہئے۔مولانا نے خصوصیت کے ساتھ زلیخا بیگم اہلیہ مولانا ابوالکلام آزاد کا تذکرہ کیا کہ وہ اس جنگ میں شریک ہی نہیں رہیں بلکہ وہ مولانا کا دست و بازو بن کر حیاء کے ساتھ ان کے معاون بھی رہیں۔
مولانا محمد مسلم مدنی استاذ جامعہ اسلامیہ دریاآباد نے اس کانفرنس کے انعقاد میں شرکت پر خوشی کا اظہار کیا اور ذمہ داران جامعہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ موضوع بہت ہی قیمتی ہے اور اس میں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اور علمائے کرام کی گفتگو سے ہم لوگوں کو مستفید ہونے کا موقع مل رہا ہے۔
شمالی ہند کے مشہور و عظیم درس گاہ جامعہ ابوہریرہ الاسلامیہ لال گوپال گنج کے شیخ الجامعہ مولانا ریاض احمد سلفی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادیئ ہند میں خواتین نے لازوال کارنامے انجام دیئے ہیں جس کی بہت ساری تفصیلات ہیں اور بہت سی خواتین اس سلسلے میں معروف ہیں، کچھ مشہور ناموں میں رانی لکشمی بائی، سروجنی نائیڈو،ارونا آصف علی، بیگم حضرت محل،علی برادران کی والدہ بی اماں وغیرہ ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کے کارنامے تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے ہوئے ہیں اور ان کارناموں کو منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے اس کانفرنس کے انعقاد پر مولانا اظہر مدنی اور ان کے رفقاء کو مبارک باد پیش کی۔
جامع مسجد کوکن، مہسلہ مہاراشٹر کے امام و خطیب مولانا عبدالمعید مدنی صاحب نے اس موقع پر اس عظیم کانفرنس کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ مسلم خواتین کی بات کریں تو ان کے کردار کو کئی اعتبار سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ انہوں نے ان مجاہدین آزادی کو وطن پریم پر تربیت فرمائی،نیز اگر ان خواتین کا ساتھ نہ ہوتا تو مرد حضرات آزادی کے میدان میں شریک نہیں ہوپاتے۔ اس کے علاوہ بہت سے خواتین نے خلافت تحریک، آزادیئ ہند تحریک اور انگریزوں کے دانت کھٹا کرنے میں پیش پیش رہیں۔آپ نے اس موقع پر بہت سی مشاہیر مجاہدات آزادی کا تذکرہ کیا اور ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، نیپال کے ریکٹر ڈاکٹر عبدالغنی قوفی نے اس کانفرنس کے انعقاد پر جامعہ ابوبکر الصدیق الاسلامیہ اور اس کے صدر کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کی کہ انہوں نے ایک اہم موضوع ”آزادی ہند میں خواتین کا کردار“ پر کانفرنس منعقد کی اور اس کثیر تعداد میں بڑے بڑے علمائے کرام کو مدعو کیا۔انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خواتین کے کردار کو تین خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ عورتوں کے کردار کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مجاہدین کے بعد ان کے گھروں کو سنبھالا اور اپنے شوہروں کو یقین دلایا کہ وہ آزادانہ طور پرجدو جہدِ آزادی میں لگے رہیں اور اپنے گھر سے بے فکر رہیں۔ کچھ خواتین نے بالواسطہ میدان کارزار میں معرکہ آرائی کی،۔ نیز کچھ خواتین نے گاندھی جی کی تحریک سے جڑکر عدم تشددکی راہ اختیار کیا۔ ان ذرائع سے خواتین نے تحریک آزادی میں حصہ لیا۔
شمالی ہند کی معروف عظیم درس گاہ جامعہ خیرالعلوم کے شیخ الجامعہ مولانا ابراہیم مدنی امیر ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارت نگر نے اس موقع پر جامعہ ابوبکر الصدیق الاسلامیہ کے سبھی ذمہ داران اور خصوصی طور پر مولانا اظہر مدنی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایسے وقت میں جبکہ ہماری قربانیوں کو فراموش کیا جارہا ہے، اس طرح کے پروگرام کو منعقد کرنے کی سخت ضرورت ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کی خدمات پر ریسرچ ہو اور اسے محفوظ کیا جاسکے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کرسکیں۔
معروف مربی اور استاذ الاساتذہ اور معروف شخصیت مولانا خورشید احمد سلفی شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، نیپال نے اس موقع پر جامعہ ابوبکر الصدیق الاسلامیہ کے ذمہ داران اور اس کے صدر مولانا محمد اظہر مدنی کا اس کانفرنس کے منعقد کرنے پر بے حد مسرت کا اظہار فرمایا اور شکریہ ادا کیا اور اس خوبصورت موضوع کے انتخاب پر مبارک باد پیش کی۔مولانا نے بتایا کہ کس طرح بیگم حضرت محل نے انگریزوں کے دانت کھٹے کئے اور وہ کاٹھمنڈو نیپال پہنچیں، پھر ملکہئ وکٹوریہ نے انہیں معافی عطا کی لیکن وہ ہندوستان نہ آکر نیپال ہی میں اپنی جاں جان آفریں کے حوالے کردی۔مجاہد آزادی مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی اور ان کی اہلیہ محترمہ کا بھی تذکرہ کیاکہ کس طرح انہوں نے مولانا کے قید و بند کے وقت صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کیا۔
ہندو بیرون ہندمیں معروف اور عظیم درس گاہ جامعہ امام ابن تیمیہ مشرقی چمپارن کے نائب رئیس ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی نے کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مولانا اظہر مدنی کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ کانفرنس اس طرح کے موضوعات کے لئے ایک نمونہ بنے گی کہ گھسے پٹے مضامین کے سوا اس جیسے موضوعات کو بھی موضوع گفتگو بناسکتے ہیں۔انہوں نے کہا: آزادی کی پہلی تحریک نواب سراج الدولہ کی ہے جو پلاسی کے میدان میں چھیڑی گئی، دوسری تحریک ٹیپو سلطان کی ہے۔ تیسری تحریک تحریک شہیدین ہے، چوتھی تحریک بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں ۷۵۸۱ء میں ہوئی۔ یہاں سے خواتین کے کردار کا تذکرہ ہوتا ہے جن میں رانی لکشمی بائی، بیگم محل یا اس طرح کے دوسرے نام ہیں۔پہلے تین تحریکات میں خواتین کے کردار کا خال خال کا تذکرہ ملتا ہے لہذا ضرورت ہے کہ ۷۵۷۱ء سے ۷۴۹۱ء تک کے خواتین کے کارناموں کو مرتب کریں۔
جناب وکیل پرویز صاحب ناظم مالیات مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے اس موقع پرایک جامع خطاب فرمایا اور ناگپور کے حوالے سے کچھ مسلم خواتین کا ہندوستان کی آزادی میں سرگرم رول کو ذکر کیابلکہ انہوں نے کہا کہ باعزت گھرانوں کی خواتین کے علاوہ کچھ طوائفوں نے بھی اس سلسلے میں بہت نام کمائے ہیں اور اس کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مولانا محمد اظہر مدنی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کی۔
مولانا عبدالستار سلفی امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث دہلی نے اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اس طرح کے مضامین پر اس جیسی کانفرنسوں کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی نسلوں کو اپنی تاریخ ذہن نشیں کراسکیں اور وہ ہمارے پاس محفوظ رہیں۔جنگ آزادی عزیزن بیگم کی کاوشوں کو تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ خواتین اسلام کی قربانیوں کے تذکرے کے بغیر آزادی کی داستان نامکمل ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامیات کے پروفیسر جنید حارث صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آبائی وطن غازی پور پر تحریک شہیدین کے اثرات اور اس میں سرگرم شرکت کا تذکرہ کیا کہ وہاں کی عورتیں اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرتی تھیں۔پروفیسر صاحب نے اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد اور اہم عنوان کے انتخاب پر اپنی فرحت و انبساط کا اظہار کیا۔
مولانا اشفاق سجاد تیمی وکیل الجامعہ جامعۃ الامام ابن باز الاسلامیہ گریڈیہہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر جھارکھنڈ کے حوالے سے بات کریں تو جھارکھنڈ کی خواتین نے بھی تحریک آزادی میں قابل قدر خدمات انجام دیں، ان کا مرکز دلال پور ضلع صاحب گنج تھا جہاں سے یہ اپنی کوششیں جاری رکھتی تھیں۔مرشدآباد سے رانچی تک کی خواتین کے مابین ایک نظام قائم تھاکہ مجاہدین کی مالی اعانت کے لئے مٹھیا چاول جمع کرتی تھیں اور ہفتہ کے دن اس کو جمع کرکے اسے مجاہدین کے لئے بھیجا کرتی تھیں۔ ساتھ ہی مولانا نے اس پروگرام کے انعقاد کے لئے مولانا اظہر مدنی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کی۔
پروگرام کے مہمان خصوصی عالم اسلام کی معروف شخصیت، سابق پروفیسر جامعۃ الامام محمد بن سعود ریاض اور موسس دارالدعوۃ دہلی ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار فریوائی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک شہیدین کے حوالے سے آتا ہے کہ اس میں خواتین نے بھی سرگرم رول ادا کیا۔آپ نے اس پروگرام کے جملہ خطابات کو سراہا کہ بہت حد تک اس کانفرنس کے مضمون کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے ڈاکٹر موصوف نے جامعہ ابوبکر الصدیق الاسلامیہ کے ذمہ داران کو سراہا اور انہیں مبارک باد پیش کی۔
صوبائی جمعیت اہل حدیث بہار کے امیر مولانا محمد علی مدنی صاحب نے اس کانفرنس سے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ جامعہ اور اس کی خدمات سے باخبر ہوں کیونکہ میں اسی علاقہ سے ہوں جہاں یہ ادارہ ہے۔ اس طرح کے پروگراموں میں شریک ہوتا رہا ہوں، میں اس خوبصورت اور معنیٰ خیز پروگرام کے انعقاد پر مولانا اظہر مدنی اور ان کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ آزادی ہند میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ شریک رہیں۔ ۷۵۸۱ء میں بہادر شاہ ظفر کی اہلیہ بیگم زینت محل نے کس جرأت مندی اور بہادری کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے،یہاں تک کہ انہیں اپنے شوہر کے ساتھ جلاوطن ہونا پڑا اور ان کے پہلو میں مدفون ہوئیں۔ اسی طرح سے نواب صدیق حسن خان کی اہلیہ کی قربانیوں کو ہم فراموش نہیں کرسکتے۔
مولانا محمد ہاشم فیضی امیر ضلعی جمعیت اہل حدیث مغربی چمپان نے بھی اپنا خطاب کیا اور اپنے خطاب میں ذمہ داران جامعہ کی اس کانفرنس کے انعقاد پر ستائش کی اور خواتین کے کردار پر مبنی اس کانفرنس کی ستائش کرتے ہوئے اپنا منظوم کلام پیش کیا۔
معروف جرنلسٹ زبیر سعیدی صاحب نے بھی اس پروگرام کو خطاب کیا اور اس پروگرام کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یقینی طور پر یہ اچھوتا موضوع ہے جس میں شریک ہوکر مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس کامیاب پروگرام کے انعقاد پر انہوں نے مولانا اظہر مدنی اور ان کے رفقائے کار کو مبارک باد پیش کی۔
معروف اسکالر ڈاکٹر محمد شیث ادریس تیمی نے اپنے خطاب میں جامعہ ابوبکر صدیق الاسلامیہ کے صدر مولانا محمد اظہر مدنی اور موسس جامعہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس کانفرنس کو منعقد کرکے داغہائے سینہ کو زندہ کرنے کی ایک کامیاب سعی کی ہے۔ یقینی طور پر کائنات کا نصف حصہ خواتین کا ہے۔یہ شبنم ہیں وقت پڑنے پر شعلہ بن سکتی ہیں،جنگ آزادی میں مسلم خواتین پیش پیش رہیں۔ رانی لکشمی بائی اور سروجنی نائیڈو کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن ہمیں ضرورت ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ ہم مسلم خواتین کی کاوشوں کو بھی زندہ کریں۔
جناب ایڈوکیٹ فہیم صاحب نے اس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس بہت بہتر عنوان پر قائم ہے جس کے لئے میں مبارک باد دیتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجاہدین آزادی کو ان کی خواتین نے گھر سے بہت مضبوط رکھا جس کی وجہ سے وہ اتنا بڑا کارنامہ انجام دے سکے۔ کملا نہرو بھی ان خواتین میں سے تھیں۔
ہندوستان کی قدیم دینی درس گا ہ اور دہلی کا اہم ادارہ جامعہ ریاض العلوم کے ناظم جناب عامر عبدالرشید نے کہا کہ میں جامعہ کے ذمہ داران کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس پروگرام میں شرکت کا موقع دیا اور مجھے اس پروگرام سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔یقینی طور پر خواتین کا جنگ آزادی میں کردار بہت اہم رہا ہے جن میں بیگم حضرت محل، عابدی بانو بیگم، جھانسی کی رانی، بیگم قدوائی وغیرہ کے نام تاریخ میں آب زر سے لکھے ہوئے ہیں۔
دہلی کی علمی خدمات کے لئے معروف ادارہ موسسہ دارالدعوہ نئی دہلی کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ایوب عمری نے اپنے پرمغز خطاب میں اس انتہائی کامیاب پروگرام کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور بہت ساری مجاہدات کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا۔انہوں نے اپنے جامع خطاب میں کہا کہ خواتین کا آزادی میں کردار کہیں سے بھی مردوں سے کم نہیں بلکہ ان کی کوششیں مساویانہ ہیں اور ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیاجاسکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرافع محمود مدنی صاحب مدینہ منورہ نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس کانفرنس کو منعقد کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین نے جنگ آزادی میں جو کردار ادا کیا ہے اسے مدون کیا جائے اور اسے مختلف زبانوں میں چھاپ کر پھیلایا جائے۔انہوں نے اس سلسلے میں متعدد و مفید تجاویز پیش کی۔
اخیر میں اس کانفرنس کے صدر حضرت مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے ایک جامع اور تاریخی شواہد سے بھرپور تقریر پیش کی اور کہا کہ ہمیشہ سے ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ ملک و ملت کے تئیں وفادار رہی ہیں اور انہوں اپنے بچوں کی ایسی تربیت فرمائی ہے کہ انہوں نے ملک و ملت کا نام روشن کیا، دین و وطن کا علم بلند کیا اور اپنے خون جگر سے اپنی جاں بازی اور جاں فروشی سے آزادی وطن کا پروانہ حاصل کیا اور ان ماؤں کی ہی تربیت اور جذبات و خدمات کا ثمرہ تھا کہ ان کے سپوتوں نے آزادی حاصل کرنے کے بعد تعمیر و ترقیئ ملک میں اپنا تن من دھن اپنا سب کچھ صرف کردیا، اپنے حقوق کے مطالبے اور تقاضے سے قطع نظر اپنے وطن اور اس کے باسیوں کے حقوق کی ادائیگی ہی کو اپنا فرض سمجھا۔یہ سب ماؤں کی تربیت اور ان کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ آج بھی ملک و ملت کو ایسی ہی خواتین اور ایسے ہی فرزندوں کی ضرورت ہے۔مولانا نے نمونہ کے طور پر دور اول کی خواتین سے لے کر آزادیئ ہند کی معروف مجاہدین آزادی کے ساتھ مجاہدات آزادی کا بھی ذکر فرمایا اور مجاہد خواتین کی تعریف میں کہے گئے اشعار کے قدیم و جدید نمونے بھی پیش فرمائے۔
پروگرام کے مہمان اعزازی آل انڈیا تنظیم ائمہ مساجد کے صدر مولانا عمیر الیاسی صاحب نے اس پروگرام سے خطاب کیااور مولانا اظہر مدنی اور ان کی ٹیم کے ممبران کو مبارک باد پیش کی اور اس طرح کے پروگرامس کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ ہمار شاندار ماضی کو یاد کرناہم پر فرض ہے کیونکہ ماضی کو یاد کرکے ہی مستقبل کو سنوارا جاسکتا ہے۔ اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد کریں گے تو ہمیں مزید کچھ کرنے کی ہمت ملے گی۔
یہ پروگرام بذریعہ گوگل میٹ منعقد ہوا تھا۔ اس میں ڈاکٹر معراج تیمی خیبر، ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی مکہ مکرمہ، مولانا قطب الدین اثری، مولانا ابوشاد سلفی ریاض، عطاء اللہ انور پٹنہ ہائی کورٹ،معروف شخصیت عبدالرحمن بٹ جموں کشمیر، معروف داعی مولانا عبدالمجید مدنی، محمد سلفی، محمد رئیس فیضی، ڈاکٹر اسعد وغیرہم نے بھی شرکت کی لیکن ٹیکنکل خرابی کی وجہ سے ان کے آراء سے حاضرین کو استفادے کا موقع نہیں مل سکا۔ اس پروگرام کی نظامت مولانا محمد فضل الرحمن ندوی نے انجام دی جبکہ کانفرنس کی تیاری اور کامیاب بنانے میں ذمہ داروں کی رہنمائی اور رفقاء و معاونین مولانا ضیاء الرحمن تیمی، محمد ارشد بن مولانا اصغر علی کے ہمراہ مولانا سعیدالرحمن نورالعین سنابلی نے بھرپور کردار ادا کیا۔
637 total views