نئی دہلی
آج یقینا ہمارے دل مسرت و شادمانی کے مبارک جذبات سے لبریز ہیں اور ہم سب ہندوستانی وطن عزیز ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی جہاں کہیں بھی ہیں پورے قومی جذبہ اور جوش و خروش کے ساتھ اپنے اپنے طور پر یوم آزادی منا رہے ہیں۔ ہمیں حق بھی ہے کہ اس دن کو یوم عزم اور یوم تشکر کے طور پر منائیں اور اپنے اسلاف کی نعمت آزاد ی حصول کے لیے ان گنت جانی و مالی قربانیوں کو یاد کریں اور عزم نو کریں کہ ملک وملت کی تعمیرو ترقی اور نیک نامی کے لیے ہر ممکن قربانی پیش کرنے سے کبھی گریز نہیں کریں گے اور ہمارے اسلاف نے آزاد ہندوستان کے تئیں جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کے لیے جد و جہد کرتے رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے کیا۔ موصوف کل یوم جمہوریہ کے پر مسرت موقع پر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے اعلیٰ تعلیمی وتربیتی ادارہ المعہد العالی للتخصص فی الداراسات الاسلامیہ نئی دہلی واقع اہلحدیث کمپلیکس ، جامعہ نگر ، اوکھلا، نئی دہلی میں پرچم کشائی کے بعد طلبہ واساتذہ اور حاضرین سے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آزادی بڑی قربانیوں کے بعد ہمیں حاصل ہوئی ہے ،اس لیے اس نعمت کی قدر کریں اور ہر اس عمل سے باز رہیں جس سے آزادی کی روح مجروح ہوتی ہو۔ یاد رہے کہ ہمارے آبا واجداد نے بلا تفریق مذہب ومسلک سب مل کر اس کو آزاد کر ایا اور اسے اپنے خون دل سے سینچا اور گنگا جمنی تہذیب کی اساس پر پروان چڑھایا ہے۔ آج بھی متحد اور باہم مربوط و منظم ہوکر ہی اس کی حفاظت و دفاع اور تعمیر و ترقی کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
مولانا نے اپنے خطاب میں تحریک شہیدین خصوصا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علمی وفکری وراثت کے امین اسکندر عزم شاہ محمد اسماعیل شہید اور صادقان صادق پور کا ذکر جمیل کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آزاد ی میں ہماری قوم وملت خصوصا جماعت اہل حدیث کی عظیم قربانیوں کی خونچکا داستانیں چھپی ہوئی ہیں۔ وہ صادقان صادق پور جن کی انگریزی استعمار کے خلاف جد و جہد اور مساعی جمیلہ کی وجہ سے انگریزوں نے ان کے گھروں اور بنگلوں کو ڈھاکر زمین دوز کردیا تھا، وہ در ویش صفت تھے اور ان کی قربانی اور دین و وطن سے محبت، استعمار سے نفرت، خدا ترسی ، تقویٰ شعاری، بے لوثی اور سادگی ضرب المثل تھی، انہوں نے تختہ دار پر چڑھنا اور عبور دریائے شور کی اذیت کو گوارا کیا اور اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔ یہ ساری باتیں اس وقت کے سر کاری گزٹ، رپورٹس اور تاریخ کی کتابوں میں جلی عنوان سے لکھی ہوئی ہیں۔ لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنے اس قابل فخر ورثہ اورسنہری تاریخ کو بھلادیا ہے۔ حتی کہ اس سے ادنیٰ شغف بھی نہیں رہ گیا ہے تو ایسے میں نئی نسل اپنے جلیل القدر آباء کا علم ازبر کر کے میراث پدر کی حقدار کیسے ہوسکتی ہے۔ جو کہ بہر حال ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ان مجاہدین آزادی نے ہندومسلم سکھ عیسائی آپس میں سب بھائی بھائی کا نعرہ مستانہ دیا تھا اور سب نے مل کر انگریزوں کو دیش نکال دینے کا کام کرکے آزادی کی نعمت سے مالا بال ہوئے تھے آج بھی ہم عزم کریں کہ سب مل کر اتحاد واتفاق کے ساتھ وطن عزیز کی تعمیر وترقی کے لیے کام کریں گے اور ملک کی سا لمیت، جمہوریت اور عزت و وقار کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے ۔
امیر محترم نے مزید کہا کہ آزادی اور حق کے نام پر انار کی، بد حواسی، افراتفری اور بھید بھائو سے اجتناب کیجئے اور ملک وملت کی تعمیر وترقی میں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لگ جائیے۔ اور اپنی جان پر کھیل کر اس کی آن ،بان، شان پر آنچ آنے نہیں آنے دیجئے۔ ایمانداری اور امانت داری کا یہی تقاضا اور یوم آزادی کا یہی پیغام ہے جو ہر گھڑی پیش نظر رہنا چاہئے ۔
اس پر مسرت موقع پر المعہد العالی للتخصص فی الدراسات الاسلامیہ کے اساتذہ وطلبہ، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے کارکنان صوبائی جمعیت اہل حدیث دہلی کے ذمہ داران اور علاقے کی اہم شخصیات موجود تھیں۔ ان میں مولانا عبدالستار سلفی، مفتی جمیل احمد مدنی، الحاج قمر الدین ، ڈاکٹر محمد شیث ادریس تیمی، انجینئر قمر الزماں،انجینئر الحاق احمد، ڈاکٹر عبدالواسع تیمی، محمد ایاز تقی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس موقع پر طلبہ نے قومی ترانہ اور ترانہ ہندی گانے کا بھی اہتمام کیا۔
1,178 total views