اسٹاف رپورٹر نوشتہ دیوار
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکے سرپرست اور سابق امیر جناب الحاج حافظ محمد یحییٰ بن حافظ حمیداللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال پر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکے امیرمولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے گہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کی موت کو ملک وملت اور جماعت کا عظیم خسارہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حافظ صاحب کی رحلت سے آج ملک وملت اور جماعت کے ایک سنہرے عہد کا خاتمہ ہوگیا۔
امیر محترم نے کہا کہ حافظ محمد یحیی دہلوی رحمہ اللہ کو اللہ تعالی نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔آپ ملک وملت اور جماعت کے اہم ستون،بے لوث رہنما،غیور قائد،کامیاب منتظم اور مخلص سرپرست تھے۔دین پر استقامت،فکرونظر میں استحکام اور نازک ترین حالت میں بھی بلا کا ٹھہراؤ اورثابت قدمی ان کی پہچان تھی اور یہ ساری اعلی خصوصیات جہاں ان کو عظیم باپ سے ورثے میں ملی تھیں وہیں ان کی پاک طینتی،تہجد گزاری اور آہ سحر گاہی سے پیدا ہوئی تھیں۔آپ اتحاد امت اور قومی یک جہتی وفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بڑے مناد تھے اور ہر حلقے سے خوش گوار تعلقات استوار رکھتے تھے۔پیشے سے تاجر تھے لیکن دین وجماعت کی خدمت ان کی شرست میں داخل تھی۔آپ بڑے متقی وپرہیز گار،مہمان نوازاورعلماکے قدردان تھے۔صد افسوس کہ ملک وملت وجماعت کا یہ نیر تاباں صبح نوبجے بعمر 95 سال دہلی میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
امیر محترم نے کہا کہ حافظ محمدیحیی دہلوی کا خانوادہ علم وعمل سے مالا مال رہا ہے۔ آپ کے والد گرامی حافظ حمیدا للہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے نائب ناظم اورفنا نشیل سکریٹری تھے۔ پوری عمر گلستان آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی باغبانی، اس کی نگہبانی، اس کی سیرابی نیز پرورش وپرداخت میں صرف کردی، موصوف جودسخاکا سرچشمہ اور سخوت و فیا ضی کے سیل رواں تھے۔ آپ کے جود سخا کا سیل رواں ہندستان سے لے کر حجاز تک وسیع تھا۔ ہندستان کے درجنوں مدارس آپ کے مالی تعاون سے چلتے تھے،آپ نے ایسے دینی ماحول میں عظمت وشرافت کے سایہ تلے 1925ء میں دہلی میں آنکھیں کھولیں۔آپ کا گھرانہ دینی ماحول سے پُر تھا، اس لیے آپ کی نشوو نما بھی خالص دینی ماحول میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم قریبی مسجد میں چلنے والے مکتب میں ہوئی۔ پھر اسی مدرسہ میں قرآن مجید حفظ کیا۔ تکمیل حفظ کے بعد جماعت کے مشہور سلفی ادارہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں داخلہ لیا اوروہاں کے اساتذہ وشیوخ سے عربی و فارسی وغیرہ کتب کی تعلیم حاصل کی۔آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوریؒ اور مولانا عبد الجلیل رحمانیؒ وغیرہم خاص طور سے قابل ذکرہیں۔پھر کاروبار تجارت سے وابستہ ہو گئے جو آپ کا آبائی پیشہ تھا، لیکن اہل علم و دانش اور علماء ومشائخ کی صحبت میں رہ کر ہمیشہ ان سے اکتساب فیض کیا اور ان کی رہنمائی میں بہت سے جماعتی امور بھی انجام دیے۔ اسی طرح کاروبار تجارت کے ساتھ کاروبار دین سے بھی جڑے رہے۔
امیرمحترم نے کہا کہ آپ کو ابتداء ہی سے ملی وسماجی مسائل کے حل کرنے میں دلچسپی تھی۔ چنانچہ محلہ کشن گنج کی سماج سدھار کمیٹی کے صدر بنائے گئے توبحیثیت صدرکمیٹی محلہ کی اصلاح کی اور عوام کے پیچیدہ مسائل کو حل کیا۔ 1974 ء کے ہندو مسلم فیلنگ کے دوران اس کو روکنے اور ان کے مابین بھائی چارہ پیدا کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ ملک کی اہم شخصیات سے بھی تعلقات استوار رکھے، چنانچہ سابق صدر جمہوریہ ہند فخرالدین علی احمد، سابق گورنر خورشید عالم خان، ڈپٹی منسٹر ریلوے محمد یونس سلیم وغیرہم سے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ 1944ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے رکن بنائے گئے۔ 1950ء میں والد گرامی کے انتقال کے بعد ان کے جاری کیے ہوے مشن کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ مزید اسے آگے بڑھایا۔۷۴۹۱ء میں تقسیم وطن کے بعد جماعت کے اکثر لوگ پاکستان چلے گئے، ملک میں فساد کے نتیجہ میں جماعت کا شیرازہ منتشر ہو گیا، ان حالات میں آپ نے جماعت کو سنبھالا دیا۔ جنوری 1951ء صدر کانفرنس مولانا عبد الوہاب آروی نے آپ کو جنرل سکریٹری بنایا تو آپ نے جماعت میں نئی روح پھونکی۔1952ء میں جماعت کے آرگن”ترجمان،، کو جاری کیا اور سارے اخراجات خود برداشت کئے۔1954ء میں اوقاف کے تعلق سے پارلیمنٹ میں،،کاظمی بل،،پیش ہوا،اس میں جماعت اہل حدیث کا نام نہیں تھا، اس میں آپ نے جماعت کا نام شامل کروایا۔1979ء میں ابوالفضل انکلیو، اوکھلا،نئی دہلی میں پچہتر ہزار اسکوائر فٹ زمین (جہاں آج اہل حدیث کمپلیکس قائم ہے) سابق امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں آپ کی کوششوں سے اور ڈاکٹر سید عبدالعزیز سلفی صاحب ناظم دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ونائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہنداور مولانا شمس الحق سلفی رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ بنارس کی مناسب ترین زمین خریدنے کے لیے مہینوں کی جدوجہد کے صلے میں خریدی گئی۔ 1952ء میں آپ کو دوبارہ جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ ۵۹۹۱ء میں نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند منتخب ہوئے۔ مولانا مختار احمد ندویؒ اور بعدہ مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ کے مستعفی ہو جانے کے بعد دوبارہ کارگزار امیر کی حیثیت سے جماعت کی قیادت فرمائی۔ 14 /اکتوبر2001ء کے اجلاس عاملہ میں آپ امیر جماعت منتخب ہوے۔ پھر2004ء کے انتخاب میں دوبارہ امیر چنے گئے۔اور 2017ء تک عہدہ امارت پر جلوہ افروز رہے اور تادم واپسیں جمعیت وجماعت کی سرپرستی فرماتے رہے۔ آپ کے دور امارت میں اہل حدیث کمپلیکس میں کئی عمارتوں کی تعمیر عمل میں آئی۔
امیر محترم نے کہا کہ آپ جماعت کے کہنہ مشق، تجربہ کار،صاحب بصیرت، اور صائب الرائے اصحاب میں سے تھے اور میں اپنے پندرہ سالہ صحبت وتجربہ کی روشنی میں ان کی دور اندیشی،جماعتی ہمدردی اور پروقار امارت کا عینی شاہدوقائل ہوں ۔1944ء سے اب تک آپ نے جماعت کو بہت قریب سے دیکھا، اس کے نشیب وفراز سے بخوبی واقف تھے۔ اس لیے حالات اور تجربات کی روشنی جماعت کی صحیح سمت میں رہنمائی فرما رہے تھے۔
پریس ریلیزکے مطابق حافظ صاحب کی تدفین آج ہی بعد نمازعصر آبائی قبرستان شیدی پورہ،دہلی میں عمل میں آئی۔نماز جنازہ میں علماء وعوام اور سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔پسماندگان میں اہلیہ محترمہ،دو صاحبزادے جناب اسعد صاحب اور جناب مسعود صاحب،تین صاحبزادیاں اور متعددپوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، لغزشوں سے درگزر کرے، جنت الفردوس کا مکین بنائے، جملہ پسماندگان ومتعلقین کو صبرجمیل کی توفیق بخشے اورجماعت وجمعیت کو ان کا نعم البدل عطاکرے۔آمین
پریس ریلیز کے مطابق امیرمحترم کے علاوہ ناظم عمومی مولانامحمدہارون سنابلی،ناظم مالیات الحاج وکیل پرویز، نائبین امیر ڈاکٹر سید عبدالعزیزسلفی، حافظ محمدعبدالقیوم، نائبین ناظم عمومی مولانامحمدعلی مدنی،مولاناریاض احمدسلفی، حافظ محمدیوسف ودیگرذمہ داران وکارکنان جمعیت نے ان کے پسماندگان ومتعلقین نیزجملہ سوگواران سے اظہار تعزیت کیا ہے اور ان کے لئے مغفرت اوربلندیئ درجات کی دعاکی ہے۔
3,205 total views