نعمت آزادی کے تقاضوں کو پورا کریں؍مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی
آج یوم آزادی ہے، ہر ہندوستانی خواہ وہ دنیا کے جس خطے میں بھی ہوبے پناہ خوشیوں سے سرشار ہے اور وطن عزیز کے ہر تعلیمی و ثقافتی ادارے خصوصاً دینی مدارس و جامعات تقریبات و جشن یوم آزادی نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منارہے ہیں ۔ یوم آزادی سبھی دیش واسیوں کو مبارک ہو۔ یہ دن در اصل اپنے ملک و وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے تجدید عہدکا دن ہے۔ آئیے ہم مضبوط عزم کریں کہ ہم اپنے کسی قول و فعل اور حرکت و عمل کے ذریعہ اس نعمت آزادی پر حرف نہیں آنے دیں گے اور جس مبارک جذبے سے ہمارے بزرگوں ہندومسلم سکھ عیسائی سب نے مل کر جان ومال کی بیش قیمت قربانی پیش کر کے دیش کو آزادی دلائی تھی ہم اسی اسپرٹ اور جذبے کے ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی، روایتی گنگا جمنی وراثت و تہذیب، قومی یک جہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بقا اور امن وقانون اور آئین کے تحفظ کے لیے مل جل کر مساعی صرف کرتے رہیں گے۔ یوم آزادی کا یہی پیغام ہے جو ہر سال پندرہ اگست ہم کو دیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے کیا۔ موصوف کل مورخہ ۱۵؍اگست کو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام چل رہے اعلیٰ تعلیمی وتربیتی ادارہ المعہد العالی للتخصص فی الدراسات الاسلامیہ واقع اہل حدیث کمپلیکس اوکھلا، نئی دہلی میں منعقد تقریب یوم آزادی میں پرچم کشائی کے بعد آن لائن خطاب کررہے تھے۔ کیوں کہ امیر محترم ان دنوں مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی دوروزہ عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے مملکت سعودی عرب کے سفر پر ہیں۔
امیر محترم نے حاضرین سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ نعمت آزادی ہمیں کیسے ملی؟ کس سے ملی اور اس قدر عظیم الشان ملک کیسے غلام بن گیا، ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اور اسے جاننا ہر دیس واسی خصوصا نئی نسل کے لیے ضروری ہے کیوں کہ ان حقائق کو جاننے کے بعد ہی ہم آزادی کی حقیقی قدر وقیمت کو سمجھ سکتے ہیں ۔ ہمیں اس مبارک موقع پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ قومیں کیوں کر تباہ وبرباد ہوتی ہیں ، کس طرح انحطاط اور زوال کا شکار ہوجاتی ہیں اور بالآخر ایک دن غلامی کی خونین زنجیروں میں گرفتار ہوجاتی ہیں؟ تاریخ سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
امیر محترم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم اس نعمت آزادی کی قدر کریں اور اپنی قومی، ملی اور خانگی زندگی میں ہر اس رویے اور طور طریقے سے کوسوں دور رہیں جو بڑی بڑی ترقی یافتہ اور آزاد قوموں کو بھی غلامی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں۔ یہ قوموں کی زندگی کا نہایت ہی المناک موڑ ہوتا ہے اسے سمجھنے اور قوم وملت کو توڑنے والے عناصر سے ملک وقوم کو بچانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلامی آزادی کے نام پر نفس کی غلامی سے شروع ہوتی ہے اور دھیرے دھیرے اصلی غلامی کی طرف لے جاتی ہے۔ آج ہر سطح پر سوچنے اور مدارس و جامعات کے ذمہ داران، ملی ورفاہی تنظیموں اور سول سوسائٹیز کے عہدیداران اور سیاسی وسماجی جماعتوں کو چوکنا رہنے اور نئی نسل کو جد و جہد آزاد کے حوالے سے اسلاف کے روشن کارناموں سے آگاہ کرانے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر قومیں مٹ جاتی ہیں ،جماعتیں تباہ ہوجاتی ہیں اور گھر ، خاندان اور سماج بکھر جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں لوگ ایکد وسرے پر الزام دھر کر اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اور اس طرح ایک دن نکبت و ذلت اور ادبار ایسی قوموں اور جماعتوں کا مقدر بن کررہ جاتی ہے۔ اور یہی کچھ وطن عزیز کے ساتھ ہوا جب ہماری غفلت کی وجہ سے وطن عزیز غلامی کی زنجیر میں جکڑ دیا گیا ۔ لوگ پابجولاں قید وبند اور دار روسن تک پہنچائے گئے۔ لوگ اپنے ہی گھر میں اجنبی بن کر ر ہ گئے ، نہ مساجد محفوظ رہیں نہ مندر بچ پائے ، نہ گرجا گھر اور نہ ہی دیگر عبادت گاہیں اور تعلیمی و ثقافتی ادارے محفوظ رہے، ایسے میں ہمارے ملک کے بلا تفریق مذہب وملت چند برگزیدہ اشخاص آگے بڑھے اور استعمار اور غلامی کو چیلنج کیا۔ اور بے شمار رفاہی ومالی قربانیاں پیش کیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ یہ جد و جہد قومی تحریک میں تبدیل ہوگئی تاآنکہ وطن عزیز آزاد ہوگیا۔ آج تاریخ سے سبق سیکھنے اور نعمت آزادی کی حفاظت کے لیے چوکنا رہنے اور ملک ووطن کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہنے کی ضرورت ہے۔
صوبائی جمعیت اہل حدیث دہلی کے امیر مولانا عبدالستار سلفی صاحب نے اپنے خطاب میں جدو جہد آزادی میں علماء اہل حدیث کے روشن کارناموں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ جد و جہد آزادی میں علمائے اہل حدیث خصوصا صادقان صادق پورکا سب سے بڑا حصہ ہے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے میڈیا کوآرڈینٹر ڈاکٹر محمد شیث ادریس تیمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوم آزادی منانے کا حق ہمیں سب سے زیادہ پہنچتا ہے کیوں کہ ہم نے ہی استعمار کے خلاف جد وجہد کی ابتدا کی تھی اور وطن کی آزادی کے لیے سب سے بڑی تعداد میں تختہ دار پرچڑھے تھے۔ جان ومال اور املاک گنوائی تھیں اورپابجولاں عبور دریائے شور کر ائے گئے تھے۔ ہم نے ہی انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے جدو جہدکا بگل بجایا تھا۔ پھر بلا تفریق مذہب لوگ ساتھ آتے گئے اور زندانیوں اور استخلاص وطن کے جیالوں کا قافلہ بنتا گیا۔
اس موقع پرپرچشم کشائی کے بعد دیش گان جن من گن اور قومی ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا گا یاگیا اور حاضرین کے مابین شیرینی تقسیم کی گئی ۔ اس تقریب میں المعہد العالی للتخصص فی الدراسات الاسلامیہ کے موقر اساتذہ، عزیز طلبہ اور کارکنان کے علاوہ دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں جن میں مولانا مفتی جمیل احمد مدنی استاذ المعہد العالی ، جناب ایاز تقی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
2,771 total views